تحریر فیصل رمضان اعوان
فیصل آباد میں گذشتہ روزکے دلخراش اورانسانیت سوز واقعہ کے بعد لکھنے کو تب بہت کچھ تھا لیکن جب لکھنے کے لئے تیاری کی اوراس امید پر بیٹھ گئے کہ اب کے بار اس دل لرزا دینے والے واقعہ پرہم الفاظ ڈھونڈ ہی لیں گے لیکن یقین کریں کئی بار کی مسلسل کوشش کے باوجود ناکامی رہی اصل میں لکھنے والوں کے لئے الفاظ تلاش کرنا اتنا مشکل کام نہیں ہوتا جتنا غم کی چھائی اس کیفیت کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے دل میں غم و غصہ اور دردکی وہ چیخیں جواہل دل اور درد رکھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں دماغ میں اس فرعون صفت درندے کی بربریت اورظلم کی انتہا اورمظلوم کی بے بسی پر تخیل بکھر کر نہ جانے کتنی بے قراریوں میں گم ہوجاتا ہے ایک باپ بھلا اس ظلم پر کیسے ترتیب سے وہ دکھ بیان کرسکتا ہے لیکن یہ تو دستور کائنات ہے یہاں جان سے پیارے چھوڑ کے چلے جاتے ہیں اورصبر آ ہی جاتا ہے یہ واقعہ فیصل آباد میں ہوا مظلوم لڑکی میڈیکل کی طالبہ تھی نہیں معلوم کون تھی لیکن ایک بیٹی تھی اور ہاں آنا کی کلاس فیلو اورسہیلی تھی سب بچیوں کی کلاس فیلوز بھی ہوتی ہیں اورسہیلیاں بھی یہ دوستیاں ایک دوسرے کو گھروں تک بھی لے جاتی ہیں اب اگر ان گھروں میں باپ نہیں بلکہ درندے طاقت اور دولت کے نشے میں بدمست بیٹھے ہوں بلکہ بدبخت ہیں یہ ۔ تو وہاں ایسے واقعات ہونا کوئی نئی بات نہیں جہاں آنا اور اس کے بدبخت اور غلیظ باپ جیسے کردار ہوں جوباپ اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے اپنی بیٹی کی عمر کی بچی کو دل دے بیٹھا ہو اور شادی کا پیغام اس کی بیٹی لے کر جائے اور پھر اپنی بیٹی کے سامنے اس معصوم کو الگ کمرے میں برہنہ کرکے اس کی عزت تارتار کردے اور پھر شادی نہ کرنے پر اس سے اپنی بیٹی کے جوتے چٹوائے جائیں اس کے بال کاٹے جائیں اس کی بھنویں کاٹی جائیں اس پرتشدد کیا جائے جب یہ سب کچھ اپنی بیٹی کے سامنے ہی کیا جائے تو اس بیٹی کو آپ جیسے باپ کیسے اس کے عاشق سے رنگ رلیاں مناتے ہوئے منع کر سکتے ہیں ؟ غیرملکی شراب کی برآمدگی سے تو یہ لگتا ہے کہ یہ باپ بیٹی ایک ساتھ بیٹھ کر شراب کی چسکیاں لیتے ہونگے اللہ ہمارے بگڑتے معاشرے پررحم فرما دے ہمیں تو ایسے الفاظ لکھتے ہوئے عجیب وغریب حرکت کا احساس ہوتا ہے اور باربار الفاظ نہ ملنے یا الفاظ نہ ہونے کا شکوہ صرف ایسے الفاظ کا استعمال یا چناؤ ہوتا ہے جو ہمیں ادا کرنے یا لکھنے سے روک دیتا ہے جہاں غم کی طاری کیفیت میں باپ اورانکی بچیوں کو اداسی کے اس ماحول میں گھٹن ہو اور یہ پاکیزہ رشتہ ایک دوسرے سے آنکھیں نہ ملا پائے ایسے لفظوں کو ہم ادا کرنے سے بہرحال قاصر ہیں۔ فیصل آباد واقعہ ہمارے معاشرے میں طاقتوراورکمزور کے درمیان ہونے والا وہ دلسوز واقعہ ہے جو طاقتور کو مزید طاقتور بنائے گا اور کمزور پر مزید ظلم ڈھائے جائیں گے افلاطون کے فلسفے کے مطابق کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کیڑے مکوڑے پھنستے ہیں بڑے جانور اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں دنیا میں شاید اس فلسفے پر کہیں کسی ملک میں عمل ہورہا ہو یا نہ ہو ہمارے ہاں اس تلخ حقیقت پر ہرحال میں عمل کیا جاتا ہے کاش ایسا نہ ہو لیکن ایسا ہی ہوتا ہے اوراب بھی ایسا ہی ہوگا اس تمام واقعہ کو کچھ ہی روز بعد خاموش کردیا جائے گا چپ لگ جائے گی اور طاقتور پہلے سے زیادہ طاقت اور غلاظت سے نمودار ہوگا اورکمزور کی زندگی مزید جہنم بنادی جائے گی کاش ایسے فرعون صفت بدمست بھیڑئیے کو وہ سزا ملے کہ ایسی معصوم بیٹیاں گھروں میں کلیوں کی مانند کھلتی رہیں شاد رہیں آباد رہیں اورآزادی سے اپنی سہیلیوں کے ساتھ ان کے گھر جائیں اور ان بیٹیوں کے باپ سب کو اپنی بیٹیاں سمجھیں اس درندے کو وہ سزا ملے کہ باقی درندے عبرت حاصل کریں اور بیٹیاں باپ کے سینے سے لگ کر اپنی عزت کے تحفظ پر فخر کر سکیں۔ اللہ تعالی سب بیٹیوں کو ایسے دردناک دکھوں سے بچائے اور ۔ ۔ایسے درندوں کو ہدایت دے یا برباد کردے۔
اللہ ہم سب کا نگہبان ہو۔