تحریر/عبد المعید
کیا پھر نا رواں ہو گا وہ آواز کا دریا
کیا تشنہ سماعت لیئے مر جائیں گے ہم لوگ
ابھی معلوم ہوا کہ استاد محترم مولانا ظفر احمد قاسم صاحب انتقال کر گئے ہیں۔وفات کی خبر سنتے ہی ذہن ماضی کی جانب چلا گیا۔جامعہ خالد بن ولید میں گزرے دن ذہن میں فلم کی مانند چلنے لگے۔جو جو لمحات استاد جی کو دیکھتے گزرے وہ منظر نمایاں ہو گئے۔
سراپا محبت شخصیت تھے۔ “جی میرے چاند ” یہ محبتوں بھرا لفظ انکا تکیہ کلام تھا۔یہ جملہ ان کے دل میں موجود محبت کی ترجمانی کرتا تھا۔چھوٹے بڑے کو اسی جملے سے مخاطب کرتے تھے۔طالب علموں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ان کی سہولیات کا خیال رکھتے۔جتنی سہولتیں اور آسانیاں جامعہ خالد بن ولید میں طلباء کو میسر ہیں وہ دارالعلوم کراچی کے بعد شاید ہی کسی ادارے میں ہوں۔شہر سے میلوں دور ان کا ادارہ ان کے اخلاص کی ترجمانی کرتا ہے۔
مولانا احمد علی لاہوری صاحب کے مرید، مولانا عبد المجید لدھیانوی صاحب کے شاگرد خاص اور مولانا نفیس شاہ صاحب کے خلیفہ تھے۔شیخ الحدیث تھے۔فن تدریس میں ماہر تھے۔بہت ہی خوبصورت آواز سے قرآن کریم پڑھتے تھے۔اسلاف کے پیروکار تھے۔مذہبی شدت پسندی سے بہت دور اعتدال کی پرامن وادی کے باسی تھے۔
بولنے کا ملکہ حاصل تھا۔جب بولتے تھے تو سامعین پہ سحر طاری کر دیتے تھے۔اہل علم نے ” رئیس المتکلمین ” کے خطاب سے نوازا تھا۔مجھے یاد ہے جب میں جامعہ دارالعلوم کراچی میں زیر تعلیم تھا تو استاد جی کی مفتی تقی عثمانی صاحب سے صرف پانچ منٹ کی ملاقات ہوئی۔ان چند منٹوں میں اپنی گفتگو سے ایسا متاثر کیاکہ شیخ الاسلام صاحب نے بے ساختہ استاد جی کے ماتھے پہ بوسہ دیا۔گفتگو میں اشعار اور چٹکلوں کے استعمال سے مخاطب کے دل میں گھر کر لیتے تھے۔الفاظ پہ دسترس ایسی کہ گھنٹوں پہ محیط گفتگو محض چند لمحات پہ محیط نظر آتی تھی۔
خیر موت سے کس کو رستگاری ہے۔استاد جی عارضی جہاں سے ابدی جہاں کی طرف کوچ کر گئے ہیں۔ہزاروں شاگرد ان سے فیض حاصل کر چکے ہیں۔جن میں مولانا طارق جمیل صاحب جیسے بڑے نام بھی شامل ہیں۔ باری تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے۔ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
بہت عمدہ۔ اعلی تحریر