قلم کی نوک پہ رکھوں گا اس جہان کو میں
زمیں لپیٹ کے رکھ دوں کہ آسمان کو میں
جب سے اللہ تعالی نےانسان کو پیدا کیا وہ حالات سے باخبر رہنے کا خواہش مند رہا ہے اس کی یہ جستجو مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے پوری ہوتی رہی ہے۔ شروع میں تحریریں پتھروں اور ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں،
پھر معاملہ درختوں کی چھال و پتوں اور چمڑے کی طرف بڑھا۔ زمانہ کی ترقی نےکاغذ اور رپریس کو وجود دیا
وقت کےتقاضوں نےنئے رخ نئے موڑ لئےجس میں صحافت نے بھی بے مثال ترقی کی،
اس میں دو راے نہیں کہ صحافت سے بگڑی ہوئی زبانیں سدھرتی ہیں، جرائم کی نشان دہی اور بیخ کنی ہوتی ہے
،غریبوں کی آہ وپکار اور مظلوں کی ڈھال بن جاتی ہے دوریاں قربتوں میں ڈھلتی ہیں،
معاشرتی واقعات وحوادثات تاریخ کی شکل میں مرتب ہوتے ہیں۔
تاریخ کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں بالخصوص نظریاتی اور اسلامی صحافت معاشرہ کی مثبت تشکیل ، فکری استحکام، ملکی ،ملی ترقی اوراردو ادب کے فروغ اور ثقافتی ہم آہنگی ، تعلیم وتربیت اصلاح وتبلیغ ، رائے عامہ کی تشکیل ، خیر وشر کی تمیز اور حقائق کے انکشاف میں بہت مدد دیتی ہے۔
صحافت ایک بہت بڑی امانت داری اور ذمہ داری ہے
، اس کے لیے خدا ترسی ، تربیت واہلیت اور فنی قابلیت شرط اول ہے
فی زمانہ بدقسمتی سے بہت سے ایسے لوگوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کر لیا ہے جن میں دینی اور اخلاقی اہلیت نہیں، اصول اور کردار کے لحاظ سے وہ قطعاً غیر ذمہ دارانہ کردار اور مغربی یلغار کی حمایت اور لادینی افکار کو نمایاں کرنے میں سر گرم ہیں۔
موجودہ دور کی صحافت میں گنے چنے افراد کے علاوہ اکثریت لکھنے والے سیکولر اور لبرل ہیں۔ یہ لوگ مغرب کی پوجا کرتے ہیں
انہیں کی تہذیب و تمدن ،ثقافت اور کلچر وافکار کو اجاگر کرتے ہیں، دین اورمذہب کے خلاف لکھنا ان کا شیوا بن چکا ہے ۔
لادینیت اور لامذہبیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے
۔حالاں کہ صحافت ایک عظیم الشان ، مقدس اور پیغمبری پیشہ ہے
جس کو اسلامی اصولوں کے مطابق اپنانا چاہیے
صحافت کی تاریخ چودہ سو سال پرانی ہے اس کے بہترین نمونےقرآن و سنت میں موجود ہیں حضور ﷺ کی شخصیت ایک اچھے صحافی (کالم نگار , لکھاری , مضمون نویس , افسانہ نگار , رپوٹر ) کےلئے آئیڈیل ہونی چاہیے
کیونکہ صحافت کےبانی بھی آپ ﷺ ہیں
آپ ﷺ نےاپنےآپ کو امت کے سامنے بطور صحافی (خبر دینے والا) کے پیش کیا
کیا وہ یاد نہیں کہ
آپﷺ نے فاران کی چوٹی پر کھڑے ہو کراہل مکہ سے مخاطب ہو کر فرمایا تھاکہ اے مکہ والوں اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کی چوٹی کے پیچھےایک لشکر ہے جو تم پرحملہ آور ہونے والا ہے کیا تم میری خبر کی تصدیق کرتے ہو سب نے بلا تفریق بیک زبان ہوکر کہا ہم آپ کی خبر کی تصدیق کرتے ہیں آج تک آپ کی ہر بات سچی ہوئی پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو بھلائی کی دعوت دی
صحافی پہلے اپنی ذات کو لوگوں کے سامنے پیش کرے یہاں تک کہ لوگ اسکی صداقت کی گواہی دیں اور آپ ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوے معاشرہ کو بھلائی کی طرف لیکر چلے خبر کی اشاعت کرنا یا نہ کرنا معاشرہ کی اچھائی پر مبنی ہو اگر خبر کے نشرکرنے سے لوگوں میں انتشار , نفرت , دشمنی , اور معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہو تو ایک اچھے صحافی کی صفت ہے کہ وہ اسے نشر نہ کرے
اسلامی صحافت ہی قوم کے ذہنوں کی زندہ تعمیر ہے
