88

ذوالبجادین ؓ !جنہیں امام انسانیت نے لحد میں اتارا/تحریر/اعجاز خاں میو

ابھی شیر خواری کی منزل میں تھے کہ باپ کا انتقال ہو گیا۔ والد ہ نہایت غریب تھیں۔اس واسطے چچانے پرورش کا بیڑا اٹھایا۔ جب جوانی کی عمر کو پہنچا تو چچا نے اونٹ بکریاں ،غلام ، سامان اور گھر باردے کرضروریات سے بے نیاز کر دیا۔ ہجرت نبوی کے بعد توحید کی صدائیں عرب کے گوشے گوشے میں گونجنے لگی تھیں اور یہ گونج ان کے کان میں برابر پہنچ رہی تھیں ۔ چونکہ لوح فطرت بے میل اور شفاف تھی ۔ اس واسطے انہوں نے دل ہی میں قبول اسلام کی تیاریاں شروع کر دیں ۔ اسلامی آواز جوعرب کے کسی گوشے میں بلند ہوتی ان کے لیے ذوق وشوق کا تازیانہ بن جاتی ۔ قبول اسلام کے لیے ہر روز قدم بڑھاتے مگرچچاکے خوف سے پھر پیچھے ہٹا لیتے انہیں ہر وقت اس کا انتظار رہتا تھا کہ چچا اسلام کی طرف مائل ہوں تو یہ بھی آستانہ حق پر سر تسلیم خم کر دیں ۔ اس انتظار میں ہفتے گزرے، مہینے بیتے اور سال ختم ہو گئے یہاں تک کہ مکہ فتح ہو گیا اور دین حق کی فیروز مندیاں ، رحمت ایز دی کا ابر بہار بن کر کوہ و دشت پر پھول برسانے لگیں ۔ نوجوان کا پیا نہ صبر بھی لبریز ہو گیا۔اپنے چچا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: ’’ اے عمِ محترم ! میں کئی برسوں سے آپ کے قبول اسلام کی راہ تک رہا ہوں مگر آپ کا حال وہی ہے جو پہلے تھا۔اب میں اپنی عمر پر زیادہ اعتمادنہیں کرسکتا۔ مجھے اجازت دیجیے کہ آستانہ اسلام پر سر رکھ دوں ۔‘‘ جس بات کا خطرہ تھا وہی ہوا ۔ ادھر قبول اسلام کا لفظ لبوں سے باہر نکلا ادھر چچا آپے سے باہر ہو گیا اور کہنے لگا : ’’اگر تم اسلام قبول کرو گے تو میں اپنا ہر سا مان تم سے واپس لے لوں گا۔ تمہارے جسم سے چادر اتارلوں گا۔ تمہاری کمر سے تہ بند تک چھین لوں گا۔ تم اپنی دنیا سے بالکل تہی دست کر دیئے جاؤ گے اور ایسے حال میں یہاں سے نکلو گے کہ تمہارے جسم پر کپڑے کا ایک تار بھی باقی نہیں ہو گا ۔‘‘ نوجوان نے کہا : ’’ اے عم محترم ! میں مسلمان ضرور ہوں گا۔ میں رسول اللہﷺ کی ضرور اتباع کروں گا۔ اب میں شرک و بت پرستی کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ آپ کا زرومال آپ کے لیے مبارک اور میرا اسلام میرے لیے مبارک ۔تھوڑے دنوں تک موت ان چیزوں کو مجھ سے چھڑادے گی ۔ پھر یہ کیا برا ہے اگر میں آج خود ہی انہیں چھوڑ دوں ۔ آپ اپنا سب مال و اسباب سنبھا ل لیں۔ میں اس کے لیے دین حق کو قربان نہیں کر سکتا ۔‘‘ نوجوان نے یہ کہتےہوئے چچا کے تقاضا کے مطابق اپنا لباس اتار دیا۔ جوتے اتار دیے، چادر اتار دی اور اس کے بعدتہہ بند بھی اتار کر ان کے سپر دکر دیا۔ پھرچچا کے بھرے گھر سے اس طرح نکلے کہ خدائے واحد کے نام کے سوا کوئی بھی اور چیز ساتھ نہ تھی ۔ میں ہوں وہ گر م رو راہ وفا جوں خورشید سایہ تک بھاگ گیا چھوڑ کے تنہا مجھ کو اس حال میں آپؓ اپنی ماں کے گھر میں داخل ہوئے۔ ماں نے انہیں مادرزاد بر ہنہ دیکھ کر آنکھیں بند کر لیں اور پریشان ہو کر پوچھا: ’’ اے میرے بیٹے تمہارا یہ کیا حال ہے؟ نوجوان نے کہا: ’’ اے ماں! اب میں مومن و موحد ہو گیا ہوں ۔ اللہ اللہ ! مومن اور موحد ہو گیا ہوں۔‘‘ کے الفاظ حال کے کس قدر مطابق تھے۔انہوں نے اپنی مادی دنیا اپنے ہاتھوںبھسم کی تھی ۔ انہوں نے اپنی زیست کے تمام ساز و سامان اپنے ہاتھوں ذبح کیے تھے۔ انہوں نے اسلام کے لیے اپنی زندگی کے تمام رشتوں کو کاٹ کاٹ کر پھینک دیا تھا۔ اب ان کے پاس ا ونٹ تھے نہ گھوڑے تھے، بھیڑ یں تھیں نہ بکریاں ، سامان تھا نہ مکان ، غذا تھی نہ پانی ، برتن تھا نہ جسم پر کپڑےکا ایک تار ۔ مادرزاد بر ہنہ اور سمجھ یہ رہاتھا کہ اب میں مومن اور موحد ہوا ہوں ۔ ماں نے پوچھا تو اب کیا ارادہ ہے؟ کہنے لگا : ’’ اب میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں جاؤں گا۔ صرف یہ چاہتا ہوں کہ مجھے ستر پوشی کے بقدر کپڑادے دیا جائے ۔‘‘ ماں نے ایک کمبل دیا۔ نوجوان نے اس کمبل کے دوٹکڑے کیے ایک ٹکڑ ا تہ بند کے طور پر اور دوسرا چادر کے طور پر اوڑھا اورپھر یہ مومن اور موحد اس حال میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ رات کی تاریکی اپنی قوت ختم کر چکی تھی ۔ کائنات سورج کا استقبال کرنے کے لیے بیدار ہورہی تھی ۔ پرندے حمد خدا میں مصروف تھے۔روشنی سے بھیگی ہوئی بادِسحر مسجد نبوی میں اٹکھیلیاں کر رہی تھی کہ گرد سے اٹا ہوانوجوان تاروں کی چھاؤں میں مسجد نبوی میں داخل ہوا۔ ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر آفتاب ہدایت کے طلوع کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں صحن مسجد کے ذرات نے خوش آمد ید کا ترانہ چھیڑا۔ معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لا رہے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے صحن مسجد میں قدم رکھا تو ایک اجنبی نوجوان سامنے تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا:’’ آپ کون ہو ؟‘‘ عرض کہا: ’’ایک فقیر اور مسافر، عاشق جمال اور طالب دیدار ۔ میرا نام عبدالعزٰی ہے۔‘‘ ر سول اللہﷺ نے( حالات سننے کے بعد ) فرمایا: ’ ’ یہیں ہمارے قریب ٹھہرو اور مسجد میں رہا کرو ۔‘‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ آج سے تمہارا نام عبد اﷲ اور لقب ذوالبجادین (دوکمبلوں والا) ہے اور انہیں اصحاب صفہ رضوان اللہ علیہم میں شامل کر دیا۔‘‘ یہاں اللہ کا یہ موحد بندہ اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ قرآن پاک سیکھتا اور آیات ربانی کو دن بھر بڑے ہی ولولے اور جوش سے پڑھتارہتا تھا۔ ایک دن اونچی آواز تلاوت کرنے پر سیدنا فاروق اعظم ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’ اے دوست! اس قد ر اونچی آواز سے نہ پڑھو کہ وہ دوسروں کی نماز میں خلل ہو۔“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اے فاروق ؓ! انہیں چھوڑ دو ۔ یہ تو خدا اور رسولﷺ کے لیے سب کچھ چھوڑ چکا ہے۔“ رجب ۹ ھ کو اطلاع ملی کہ عرب کے تمام عیسائی قبائل قیصر روم کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے ہیں اور دہ رومی فوجوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملہ آور ہور ہے ہیں ۔ اس وقت عرب کی گرمی خوب زوروں پر تھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے آدمیوں اور روپے کے لیے اپیل کی ۔ خواتین نے اپنے زیورات اللہ کی راہ اتار کر دے دئیے ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 900اونٹ معہ مہار، پالان ، کجاوہ وغیرہ 100گھوڑے اور ایک ہزار دینا ر ( تقریباً ساڑھے پانچ کلو سونا ) دو سو اوقیہ چاندی ( تقریباً ساڑھے انتیس کلو ) چندہ دیا۔ سید نا عبدالرحمن بن عوف ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 40ہزار درہم دیئے ۔ سید نا عمر فاروق ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے تمام مال و منال اور نقد و جنس کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا اور ایک حصہ جنگ کے چندے میں دے دیا۔ سیدنا صدیق اکبر ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ اور رسول ﷺکے نام کے سوا اپنا سب کچھ اٹھایا اور رسول اللہ ﷺ کی نذر کر دیا۔سید نا ابوعقیل انصاری ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رات بھر محنت کر کے کل چار سیر کھجور کمائیں دو سیر اپنے بیوی بچوں کو دیں اور دو سیر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیں ۔ حضرت عاصم بن عدی ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 70 وسق کھجوریں پیش کیں ۔یہا ں حضرت عبد اللہ ذوالبجارین ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہلے ہی خدا اور ر سول اللہ ﷺ کے نام کے سوا کچھ بھی موجود نہ تھا ۔ انہوں نے اپنی زندگی پیش کردی ۔ رسول اللہ کریم ﷺ30 ہزار کی جمعیت کے ساتھ ہجوم آتش بار کے طوفانوں میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے ۔سواریاں اس قدرکم تھیں کہ اٹھارہ اٹھارہ آدمیوں کے حصے میں ایک ایک اونٹ آیا۔ سامان رسداس قدر قلیل تھا کہ مسلمان درختوں کے پتے کھاتے تھے اور قیصر روم کے مقابلے میں منزل بہ منزل چلے جا رہے تھے ۔ حضرت عبداللہ ذوالبجادین ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ ولولہ جہاد سے لبریز تھا ،شوق شہادت سے سرشار تھے۔ اسی دھن میں یہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں آئے اور کہنے لگے: ”اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپﷺ دعافر مایئے کہ میں راہ خدا میں شہید ہو جاؤں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ تم کسی درخت کا چھلکا اتارلاؤ‘‘ عبداللہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ ان درخت کا چھلکا لے کر خوشی خوشی حاضر خدمت ہوئے ۔ حضور ﷺنے چھلکالیا اور اسے حضرت عبداللہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بازو پر باندھ دیا اور زبان مبارک سے فرمایا: ’’ خداوند ! میں کفار پر عبداللہ ؓ کا خون حرام کرتا ہوں ۔‘‘ حضرت عبداللہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد نبویﷺ پر کچھ حیران سا رہ گئے اور کہنے لگے: ’’ اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں شہادت کا آرزومند تھا۔‘‘ فرمایا: ’’ جب تم راہ خدا میں نکل پڑے پھراگر بخار سے بھی مر جاؤ تو تم شہید ہو ‘‘ اسلامی فوج تبوک پہنچی تھی کہ حضرت عبداللہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کوسچ مچ بخار آ گیا۔ یہی بخاران کے لیے پیغام شہادت تھا۔ رسول اللہ ﷺکوان کے انتقال کی خبر پہنچائی گئی تو آپ ﷺ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ تشریف لائے ۔ ابن حارث مزنی سے روایت ہے کہ رات کا وقت تھا۔ سید نا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں چراغ تھا۔ سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سید نا عمر فارو ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ہاتھوں سے میت کو لحد میں اتار ہے تھے۔ خود رسول اللہ ﷺ قبر کے اندر کھڑے تھے اور سید نا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمارہے تھے۔ ’’اپنے بھائی کو ادب سے لحد میں اتارو۔‘‘ جب میت لحد میں رکھ دی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اینٹیں میں خود رکھوں گا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے قبر میں اینٹیں لگائیں اور جب تدفین مکمل ہو چکی تو دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: ”اے اللہ ! آج شام تک ، یعنی اس کی وفات تک میں اس سے راضی تھا تو بھی اس سے راضی ہو جا۔“ یہ الفاظ آپﷺ بار بار دہرارہے تھے۔ واہ رے مقدر کے سکندر ! امام انسانیت لحد میں اتار رہے ہیں۔ ابو بکرؓ و عمرؓ قبر پر کھڑے ہیں اور اللہ کے رسول ﷺ اس کے لیے بار بار دعائے مغفرت فرما رہے ہیں ۔ سید نا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب نظارہ دیکھا تو ہچکیاں لے کر رونے لگے ۔ بے اختیار بولے : ”کاش اس قبر میں دفن ہونے کی سعادت مجھے نصیب ہوتی۔ “ نبی کریمﷺ پوری زندگی میں صرف پانچ مرتبہ قبر میں اترے ہیں ۔ ان میں سے ایک موقع عبداللہ ذوالبجادین کو نصیب ہوا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں