100

راشد منہاس شہید/تحریر/طاہر ایوب جنجوعہ

تحریر/طاہر ایوب جنجوعہ

“ایک کم سن مجاھد جو دھرتی کی شان پر قربان ہو گیا”
اقبال کے اس شاہين نے اپنا شباب اور جوانی اپنی دھرتی کی آن بان پر قربان کر دی, اور جذبہ حب الوطنی کی ایسی منفرد اور شاندار مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک نوجوان نسل کے لیے جرات و بہادری کا استعارہ بنی رہے گی۔ دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے کم ترین وقت کو ہمیشہ کے لیے قابل تذکرہ بنا دیا۔ کم عمری ميں ہی ملک کے سب سے بڑے عسکری اعزاز کو حاصل کرنے والے راشد منہاس 17 فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے- قوم راجپوت گوت منہاس پائی, ان کے آباؤ اجداد  جموں و کشمیر سے گرداس پور میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔ تقسیم ہندکے دوران ان کا خاندان گرداس پور سے ہجرت کر کے سیالکوٹ کے قریب آباد ہو گیا۔ راشد کا بچپن کراچی میں بسر ہوا ان کے والد پیشے کے اعتبار سے سول انجینئر اور MES  کے ساتھ وابستہ تھے۔ راشد منہاس نے اپنی ابتدائی تعلیم جیسس اسکول اور کوئین میری اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد والد راولپنڈی شفٹ ہوئے تو راشد منہاس کو سینٹ میری اکیڈمی رائل آرٹلری بازار راولپنڈی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ مگر کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ کراچی منتقل ہوئے تو ان کو سینٹ پیٹرک کالج میں داخل کروا دیا گیا جہاں سے انہوں نے سینیر کیمبرج کا امتحان نمایاں پوزیشن میں پاس کیا۔ اس کامیابی کے بعد انہوں نے پاکستان ایئرفورس میں شمولیت اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔
راشد منہاس کا شوق رنگ لایا اور ان کو پاک فضائیہ میں سلیکٹ ہونے کے بعد ٹریننگ کیلئے کوہاٹ اور کچھ عرصہ بعد رسالپور بھیج دیا گیا۔ رسالپور میں راشد منہاس نے پاکستان ایئرفورس اکیڈمی سے فلائٹ کیڈٹ کی تربیت حاصل کی۔ ایئر فورس اکیڈمی کے طالب علم کی حیثیت سے انہوں نے جون 1970 میں پشاور یونیورسٹی سے بی ایس سی فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔
14 سالہ راشد منہاس کے ليے وہ لمحات باعث فخر تھے جب 6 ستمبر 1965 کے معرکوں میں پاک فضائيہ نے اپنی روايت کو برقرار رکھتے ہوئے شجاعت اور عسکری مہارت کا مظاہرہ کیا۔ 1965 کی جنگ نے تاريخ تو رقم کی مگر پاک فضائيہ کو ايک عظيم، پرجوش پائلٹ آفيسر بھی دے گئی۔
یہ جمعہ 20 اگست 1971ء کا واقعہ ہے۔ پی اے ایف بیس مسرور پر صبح قریباً سوا گیارہ بجے پائلٹ آفیسر راشد منہاس اپنے T-33 جیٹ ٹرینر پر اپنی دوسری سولو تربیتی پرواز کے لیے تیار تھے۔ انہوں نے طیارے کا انجن سٹارٹ کیا اور تمام آلات کو چیک کیا۔ گراؤنڈ سٹاف نے انہیں اُڑان بھرنے کا اشارہ دیتے ہوئے سلیوٹ کیا, کون جانتا تھا کہ یہ بہادر جنگجو کو ملنے والی آخری سلامی تھی۔ راشد منہاس نے اپنا طیارہ ابھی رن وے کی جانب بڑھایا ہی تھا کہ ان کے بنگالی فلائٹ انسٹرکٹر فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن نے ٹیکسی وے پر آ کر انہیں رُکنے کا اشارہ کیا۔ راشد منہاس نے  کسی انسٹرکشن کے خیال سے طیارہ روک دیا۔ مطیع الرحمن انسٹرکٹر نے اچانک جست لگائی اور اچھل کر دوسری کنٹرول سیٹ پر آن بیٹھا اور بیٹھتے ہی سیکنڈ کنٹرول سسٹم کے ذریعے طیارے کے کنٹرول پر قابض ہوگیا۔ اس نے وائر لیس کے ذریعے کراچی میں اپنے دو خصوصی دوستوں کو پیغام دیا کہ وہ طیارہ اغوا کرکے انڈین شہر جودھ پور لے جارہا ہے وہ اس کے بیوی بچوں کو اپنی تحویل میں لے کر ہندوستانی سفارت خانے پہنچا دیں تاکہ وہ وہاں پناہ لے سکیں۔ اس وقت مطیع الرحمن کے پاس چند اہم دستاویزات تھیں جو وہ ہندوستانی حکومت کو دینے جارہا تھا۔ راشد منہاس نے صورت حال کا اندازہ لگاتے ہی فوراً کنٹرول ٹاور کو اپنے طیارے کے اغوا کی اطلاع دی اور اغوا کی مزاحمت کرنا چاہی۔ مطیع الرحمن اس مرحلے کے لیے پہلے ہی تیار تھا اس نے اپنا کلوروفارم سے بھیگا ہوا رومال راشد منہاس کے منہ پر رکھ دیا اور طیارے کا رخ بھارت کی طرف کرلیا۔ اس کے پاس خفیہ رازوں پر مشتمل بہت سے کاغذات تھے جو اسے بھارتی حکومت کے حوالے کرنا تھے۔ کنٹرول ٹاور سے اشارہ ملنے کے بعد پاکستان ائیر فورس کے دو طیارے راشد منہاس کے طیارے کے پیچھے روانہ ہوئے, ابھی طیارہ ٹھٹھہ کی حدود تک ہی پہنچا تھا کہ راشد منہاس کو ہوش آ گیا, اس نے دیکھا کہ طیارہ نہایت بلندی پر پرواز کررہا ہے, راشد نے دوبارہ کنٹرول ٹاور سے رابطہ کیا اور ایک بار پھر صورت حال سے آگاہ کیا, لیکن مطیع الرحمٰن ایک گھاگ اور منجھا ہوا انسٹرکٹر اور ماہر پائلٹ تھا, وہ طیارے کو اس اینگل سے اڑا رہا تھا کہ یہ کسی ریڈار کی رینج میں بھی نہ آ سکا, 11 بج کر 33 منٹ پر راشد منہاس نے تیسری مرتبہ کنٹرول کو اغوا کا سگنل دیا۔ اب جوں جوں وقت گزر رہا تھا ان کے اضطراب میں اضافہ ہونے لگا, اچانک انہوں نے آخری فیصلہ کرلیا اور پوری طاقت سے وہ آلہ دبا دیا جو جہاز کو نیچے لاتا ہے۔ مطیع الرحمن کے اوسان خطا ہو گئے, وہ ایسی صورت حال کے لیے قطعاً تیار نہیں تھا, اس نے طیارہ بچانے کی بہت کوشش کی لیکن اب راشد اپنی مٹی کی آغوش میں سونے کے لیے بے قرار ہو چکا تھا, اچانک طیارہ ایک دھماکے کے ساتھ زمین سے ٹکرایا اور لمحہ بھر میں پاش پاش ہوگیا۔
اس کے شعلوں نے غدار مطیع الرحمن کو تو خاک میں ملا دیا لیکن راشد منہاس کو رتبہ شہادت پر فائز کر کے ایک ایسا مقام عطا کر دیا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا۔ 29 اگست 1971ء کو صدر پاکستان نے انہیں پاکستان میں جرأت اور شجاعت کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر عطا کرنے کا اعلان کیا۔ وہ یہ عظیم اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے چوتھے فرزند تھے۔ ان کا یہ اعزاز 31 جنوری 1977ء کو ایوان صدر اسلام آباد میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں ان کی والدہ مسز رشیدہ منہاس نے وصول کیا۔
یہ راشد منہاس کا جذبہ ایمانی اور آتش حب الوطنی ہی تھی جس نے راشد منہاس کو وہ بے مثال جرات بخشی جس کے تحت انہوں نے ایک ملک دشمن انسٹرکٹر کے ہاتھوں اپنی قوم کو ایک بہت بڑے نقصان سے بچا لیا, اور ایک غدار کے ناپاک منصوبے کو ناکام بناتے ہوئے اپنی دھرتی کے ساتھ وفا کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔
راشد منہاس شہید کا احساسِ تفاخر، جذبہ شجاعت اور حسن حب وطن ہے جس نے ان کو آخری لمحات میں بھی جنگ جیت لینے کا فیصلہ کرنے کا حوصلہ بخشا, بلاشبہ راشد منہاس شہید نے اپنی بے مثال قربانی سے اس قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔
قوم وطن کے اس جیالے سپوت کو سلام اور سلوٹ پیش کرتی ہے۔ جب تک اس ملک میں راشد منہاس شہید جیسے بہادر اور نڈر نوجوان موجود ہیں، دشمن اس ملک کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں