سراج الہندشاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ25ان المبارک 1159ھ بمطابق20ستمبر 1746 بروز منگل کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔ایک قول 7شوال 1239ھ / 5 جون 1823ءکا بھی ہے۔ آپ کا تاریخی نام غلام حلیم ہے جس کے اعداد 1159 ہیں۔ جس سے سنہ ولادت نکلتا ہے آپ کا سلسلہ نسب 34 واسطوں سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تک جاپہنچتا ہوتا ہے۔آپ ؒ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے فرزندِ اکبر تھے۔
درس و تدریس:
شاہ عبد العزیز صاحب جب سترہ سال کے ہوئے تو ان کے والد بزرگوار حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی وفات ہوئی۔ پچیس برس کی عمر ہی سے آپ متعدد موذی امراض میں مبتلا رہنے لگے تھے اور آخر عمر تک اس میں گرفتار رہے۔ اوائل ِعمر ہی میں کثرت امراض کے باوجود شاہ صاحب نے مدة العمر درس و تدریس کا بازار گرم رکھا اور اپنے والد کے جانشین مقرر ہوئے۔ شاہ عبد العزیز کو علم کی وسعت کے ساتھ استحضار میں بھی کمال حاصل تھا۔
سند تعلیمی:
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ،حضرت شیخ احمدشاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ،حضرت شیخ شاہ عبد الرحیم دہلویؒ،حضرت شیخ سید عبد اللہ واسطیؒ،حضرت شیخ سید آدم بنوری مہاجر مدنیؒ،حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ
شاہ صاحبؒ کاایک فتویٰ:
1822 ء کے لگ بھگ شاہ عبد العزیزؒ نے یہ فتوٰی دیا کہ ہندوستان ملک دارالحرب ہے اور جہاد فرض ہو گیا ہے۔ اسی فتوے کی بنیاد پرانگریزوں کے خلاف جنگیں لڑی گئیں، بالا کوٹ کی جنگ سیداحمد شہیدؒ کی قیادت میں لڑی گئی، بنگال میں حاجی شریعت اللہؒ اور تیتومیرؒ نے جنگ لڑی، جنوبی پنجاب میں سردار احمد خان شہیدؒ نے جنگ لڑی، سرحدی علاقہ میں حاجی صاحب ترنگ زئیؒ اور فقیر ایپیؒ نے جنگ لڑی، بیسیوں جنگیں ہوئیں۔ وہی جنگیں جب آگے بڑھیں تو پھر حضرت شیخ الہندؒ کے زمانے میں آخری جنگ کا منصوبہ ’’تحریکِ ریشمی رومال‘‘ کے عنوان سے بنایا گیا ،جو ناکام ہوئی، اس کے بعد عسکری جنگ سے سیاست کی طرف منتقل ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔
تصنیف و تالیف:
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ امراض کی شدت اور آنکھوں کی بصارت زائل ہونے کے سبب بعض کتابوں کو آپ نے املا کرایا ہے۔اہم تصانیف درج ذیل ہیں:
1۔تحفۂ اثنا عشریہ:یہ فارسی زبان میں رد شیعیت میں بے مثال کتاب ہے، جس کو غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کا عربی اور اردو میں ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔
2۔عجالہ نافعہ:فنِ حدیث کے متعلقات پر ایک اہم رسالہ ہے، یہ بھی فارسی میں ہے اور متداول ہے اور اس کا اردو ترجمہ مع تعلیقات و حواشی چھپ چکا ہے۔
3۔بستان المحدثین:محدثین کے حالات کا ایک مجموعہ ہے۔ فارسی میں ہے۔ متداول ہے۔ اس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
4۔فتاوی عزیزی:شاہ صاحب کے فتاویٰ کا مجموعہ اہل علم میں کافی مقبول اور متداول ہے اور اس کا بھی اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔
5۔تفسیر فتح العزیز معروف بہ تفسیر عزیزی:یہ ان کی مشہور تفسیری تصنیف ہے، جس کی صرف چار جلدیں دو اول کی اور دو آخر کی ملتی ہیں۔ یہ بھی فارسی میں ہے۔ یہ تفسیر نامکمل صورت میں پائی جاتی ہے۔ سورة فاتحہ اور سورة البقرہ کی ابتدائی چوراسی آیتوں کی تفسیر پہلی دو جلدوں میں اور آخر کے دو پاروں کی تفسیر علیحدہ علیحدہ جلدوں میں ہے۔ یہ جلدیں متعدد بار شائع ہو چکی ہیں۔ تفسیر کے مقدمے سے یہ پتا چلتا ہے کہ شاہ صاحب کے ایک شاگرد شیخ مصدق الدین عبد اللہ تھے، جن کی تحریک پر یہ تفسیر لکھی گئی اور ان ہی کو شاہ صاحب نے اس کا املا کرایا تھا اور یہ سلسلہ 1208ھ/1793/ میں مکمل ہوا۔
6۔سر الشہادتین:یہ واقعہ کربلا پر فارسی تالیف ہے۔
ان کتب کے علاوہ بلاغت، کلام، منطق اور فلسفے کے موضوعات پر بھی شاہ صاحب نے متعدد رسالے اور حاشیے فارسی اور عربی زبان میں لکھے ہیں۔( حیات ولی، مکتبہ سلفیہ، لاہور، فتاویٰ عزیزیہ، نزہۃ الخواطر،تفسیر فتح العزیز)
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اسّی برس کی عمر میں 9/شوال 1239ھ /1823/ کو اتوار کے روز وفات پائی۔ مختلف شعرا نے تاریخ وفات کہی، جن میں حکیم مومن خان دہلوی کا قطعہ تاریخ اس فن کی ایک نادر مثال ہے
دستِ بیدادِ اجل سے بے سر و پا ہو گئے
فقر و دین، فضل و ہنر، لطف و کرم، علم و فضل
