کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے / تحریر/ انس معاویہ 144

سرگزشتِ سیدہ اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا /تحریر/انس معاویہ(رجانہ)

یوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن سب ہی اپنی اپنی جگہ عظمت و بزرگی اور شان و شوکت کی حامل ہیں۔اسی طرح سرور کائنات،ہادی عالم،امام الانبیاء،خاتم النبیین،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق سفر و حضر،یار غار و مزار،خلیفہ بلا فصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیاری بیٹی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم زوجہ محترمہ امہات المومنین میں بلند مقام حاصل ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا لقب صدیقہ اور حمیرا ہے کنیت ام عبداللہ ۔ آپ صاحب اولاد نہ تھی اس لیے آپ نے اپنی بہن اسما رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اور اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر کے نام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اپنی کنیت ام عبداللہ اختیار فرمائی۔(ابوداؤد کتاب الادب) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے والد کا نام عبداللہ،لقب صدیق اور عتیق،کنیت ابوبکر، والدہ کا نام ام رومان تھا،آپ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے ساتویں پشت اور ماں کی طرف سے گیارویں یا بارویں پشت میں جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتاہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبوت کے چار سال بعد پیدا ہوئی پیدائشی طور پو مسلمان تھی یہ ایسا اعزاز ہے جو انکو اسلام کے ان برگزیدہ ہستیوں میں داخل کردیتا ہے جن کے کان میں کفر و شرک کی آواز تک نہ پڑی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح سے پہلے انکو خواب میں دو مرتبہ دیکھا ریشمی کپڑے میں ملبوث ہیں ایک شخص کہتا ہے یہ آپکی بیوی ہے دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے تو ایسا ضرور ہوگا۔
عقد نکاح کے کچھ عرصہ بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفیق سفر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم ہوا دونوں حضرات نے مدینہ کی طرف سفر شروع کردیا راستے میں مختلف واقعات پیش آئے بالآخر عافیت کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔
اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ میں مکہ مکرمہ کی نسبت انتہائی اطمینان بخش فضا قائم فرمادی۔جس کو دیکھتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھرانے کو مدینہ بلوالیا۔یہاں آپ رضی اللہ عنہا کی رخصتی عمل میں آئی۔اسکے بعد بحثیت زوجہ نو سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں اس طرح گزارے کہ ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی محبت سے پیش آتے تھے۔ایک صحابی حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا آپ کو دنیا میں سب سے زیادہ محبت کس سے ہے آپ نے فرمایا عائشہ سے عرض کیا یارسول اللہ مردوں کی بنسبت سوال ہے فرمایا عائشہ کے والد ابوبکر سے (صحیح بخاری)
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ اس ذات اقدس کی صحبت میں بسر کیا جو دنیا میں مکارم اخلاق کی تکمیل کیلئے آئی تھی۔حضرت عائشہ کا اخلاق نہایت ہی بلند تھا آپ نہایت سنجیدہ،فیاض قانع عبادت گزار اور رحم دل تھی۔عبادات میں اکثر مصروف رہا کرتی تھی دگر نمازوں کے ساتھ ساتھ رات آخری پہر میں اٹھ کر تہجد ادا کیا کرتی تھیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اخلاق کا سب سے ممتاز جوہر انکی فیاضی اور کشادہ دستی تھی خیرات میں تھوڑے بہت کا لحاظ کئے بغیر سائل کی نذر کر دیتی تھیں۔آپ بہت زیادہ رقیق القلب تھی دل میں خوف خدا اور خشیت الٰہی تھی بہت جلد رونے لگتیں ایک مرتبہ کسی واقعے کی وجہ سے قسم کھالی پھر لوگوں کے اصرار کی وجہ سے توڑنی پڑ گئی اس کے کفارے میں چالیس غلام آزاد کئے پھر جب بھی یہ واقعہ یاد آتا بہت زیادہ رویا کرتیں (بخاری باب الہجرت)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بچپن سے ہی نہایت ذہین و فطین اور عمدہ ذکاوت کی ملکہ تھی ام المؤمنین لڑکپن کی ایک ایک بات یاد کرلیتی ان سے احکام مستنط کرتی مسائل اخذ کرتی تھی۔ہجرت کے وقت ان کی سن عمری ۸ برس تھی اسکے باوجود ہوش مندی اور قوت کا یہ حال تھا ہجرت نبوی کے تمام واقعات و جزویات یاد تھی ان سے بڑھ کر کسی صحابی نے ہجرت واقعات کو اتنی تفصیل سے بیان نہیں کیا. (از سیدہ عائشہ صفحہ 33)
حضرت عائشہ کا امت کے اوپر بہت بڑا احسان ہے ان کے واسطہ سے امت کو دین کا ایک بڑا حصہ نصیب ہوا،صحابہ کرام میں سے جنہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات آپ کے قدوسی حرکات و سکنات کثرت سے نقل کئے ہیں ان میں آپ رضی اللہ عنہا کا چھٹا (6)نمبر ہے. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دو ہزار دو سو دس حدیثیں مری ہیں۔
حضرت عروہ بن زبیر کا قول ہے میں نے قرآن و حدیث،فقہ و تاریخ،علم الانساب میں ام المومنین حضرت عائشہ سے بڑھ کر کسی میں نہیں دیکھا۔احنف بن قیش اور موسی بن طلحہ رضی اللہ عنہم کا قول ہے میں نے حضرت عائشہ سے بڑھ کر کسی کو فصیح اللسان نہیں پایا۔حضرت موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صحابہ کرام کو کسی مسئلہ میں مشکل پیش آتی وہ انہی کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ کی برأت کیلے قرآن مجید کی سترہ (۱۷)آیات نازل ہوئی۔ غزوہ ذات الرقالح کے موقع پر آپ ہی کی وجہ سے قرآن مجید میں تیمم کا حکم نازل ہوا۔
58 ہجری میں آپ کی عمر 67 سال ہوچکی تھی اسی سال رمضان المبارک میں آپ بیمار ہوگئی۔جب بھی کوئی مزاج پرسی کرتا فرماتی “اچھی ہوں” (ابن سعد)
17 رمضان المبارک 58 ہجری کی رات رحمت دو عالم کی زوجہ محترمہ اور تمام مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے فرزندوں کو سوگوار چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلے رخصت ہوگئی۔آپ کی وصیت “موت کے فوراً بعد دفن کردینا” کے مطابق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جنازے کی امامت کروائی۔جنت البقیع (مدینہ منورہ میں تدفین کردی گئی) تدفین میں قاسم بن عبداللہ،عبداللہ بن عبد الرحمن،عبداللہ بن ابی عتیق،عروہ ابن زبیر،اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم شریک ہوئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں