161

غفلت(علامات، اسباب، علاج قرآن و سنت کی روشنی میں/مبصرہ/بنتِ ایوب مریم

بنت ایوب مریم

اس کتابچے کی تقاریظ اور ہدیہ تبریک حضرت مولانا نسیم احمد الا عظمی(انڈیا)، حضرت مولانا سید جاوید حسین شاہ صاحب اور مفتی محمد اظہر صاحب(جھنگ) نے تحریر فرمائی ہیں جب کہ حرفِ تشکر کے طور پہ مقدمہ مولانا عبدالصبور شاکر نے خود لکھا ہے۔ آپ نے اس کتابچے میں غفلت کے مفہوم، علامات، اسباب، نقصانات، علاج، غفلت دور کرنے کے عملی و نفسیاتی طریقوں، اور غفلت ہٹانے والی دعاؤں پہ قرآن و سنت کی روشنی میں مدلل و مسکت خامہ فرسائی کی ہے کہ غفلت کا کوئی بھی پہلو تشنہ نہ رہ جائے۔ غفلت جیسے حساس موضوع کو منصہ شہود پہ لا کر امّتِ مسلمہ کو گراں قدر تحفے سے نوازا گیا ہے۔ کتابچے میں لکھا گیا مواد اتنا سہل ہے کہ ایک عام انسان بھی اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔ اندازِ بیاں سادہ، جملوں میں روانی اور قلم میں تیز جولانی ہے۔ مختصر اور پر اثر واقعات کو نہایت خوب صورتی سے ایک لڑی میں پرویا گیا ہے کہ کتابچہ پڑھنے والا بات سمجھ جائے اور بیزار نہ ہو۔
آپ کی محنت کا رنگ اس میں خوب نمایاں ہے۔ غفلت کے تمام عنوانات کو سہل انداز میں تحریر کیا گیا ہے۔ آخر میں وظائف اور ادعیہ ماثورہ کا تذکرہ ہے۔ مصادر و مراجع کا معتدبہ اہتمام کیا گیا ہے۔ مولانا محمد ادریس انصاری صادق آبادی نور اللہ مرقدہ کی نظم “میرا غفلت میں ڈوبا دل بدل دے” کو دعا کی صورت میں شامل فرمایا گیا ہے۔

کتابچہ کے شروع میں غفلت کے لغوی و اصطلاحی معانی کے ساتھ ساتھ اس کے کئی اقوال نقل کئے گئے ہیں۔ کتابچے میں نہایت احسن انداز سے جہالت، غفلت اور نسیان میں فرق کو واضح کیا گیا ہے کہ جہالت لا علمی ہے، نسیان بھول جانا جب کہ غفلت جان بوجھ کر لا پروائی اختیار کرنے کا نام ہے۔ نسیان پہ انسان کا اختیار نہیں جب کہ غفلت کا روگ انسان نے خود ہی لگایا ہوا ہے۔ غفلت ایک بہت بڑی بیماری ہے جس کا جلد تدارک بہت ضروری ہے ورنہ یہ انسان کی تمام تر صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ آپ دیکھیں کہ جو مسلمان آج دنیا بھر میں مظلوم و محکوم ہیں، یہ سب ہماری غفلت کا ہی ثمرہ ہے۔ غفلت شیطان کا سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ پہلے وہ ہمیں چیزوں کی طرف سے غافل کرتا ہے اور پھر غفلت کا راستہ آہستگی سے گمراہی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ اس کتابچہ کے مطالعہ سے مجھے خود اپنا احتساب کرنے کا موقع ملا کہ میں اپنے امورِ دینیہ میں کس قدر غافل ہوں۔ عبادات میں سستی، گناہوں کو ہلکا سمجھنا، گناہ میں دلچسپی پیدا ہونا، وقت ضائع کرنا اور دعاؤں کا قبول نہ ہونا غفلت کی علامات ہیں۔ اور ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جن کا عبادت میں دل ہی نہیں لگتا، گناہ کے بعد دل پہ بوجھ محسوس نہیں ہوتا اور وقت کے ضیاع کو تو ہم کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ نہایت قیمتی لمحے اسکرین کی نذر ہو جاتے ہیں لیکن ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ اپنے وقت کو خود قیمتی بنانے کی سعی کرنا غفلت کے خاتمے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔

اسی طرح جہالت و بے علمی، گناہوں کی کثرت، خواہشات کی پیروی، غافلین کی صحبت، با جماعت نماز چھوڑ دینا، لمبی لمبی امیدیں باندھنا، زیادہ ہنسنا، فضول بولنا اور رزقِ حلال کی کمی غفلت کے اسباب میں سے ہیں۔ ہماری غفلت ہے کہ جہالت میں ہی عمر گزار دیتے دیتے ہیں، نفس کی خواہشات کی تکمیل میں جتے رہتے ہیں اور لمبی لمبی امیدیں اور خواہشات لگائے رکھتے ہیں جب کہ یہ فعل اس شخص کا ہے جس کے دل میں آخرت کا استحضار نہ ہو۔ اور فکرِ آخرت کا دل سے محو ہوجانا بہت بڑی غفلت ہے۔ جسے بالتفصیل اس میں نقل کیا گیا ہے۔

غفلت کے اسباب کے بعد اس کے نقصانات پہ گفتگو کی گئی ہے کہ غفلت سے انسان ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ دلوں پہ مہر ثبت ہو جاتی ہے۔ من پسند احکامات کو چن کر باقی آیات کی تکذیب میں کوئی امر مانع نہیں رہتا۔ احکامِ الٰہی کو پسِ پشت ڈال کر اپنی خواہشات کی تکمیل عزیز تر ہوتی ہے۔ اللہ کی نشانیوں سے اعراض ہونے لگتا ہے۔ خیر کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، نیک اعمال کی توفیق ضبط ہو جاتی ہے۔ غافل کی عبادت سے حلاوت ختم ہو جاتی ہے، نماز و قرآن کا لطف جاتا رہتا ہے۔ قیامت کے دن غافل کے پاس حسرت کے سوا کچھ نہ ہوگا اور اللہ کی سر زنش سے کوئی طاقت نہ بچا پائے گی۔
غفلت کی علامات کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ میں نے جہاں خود احتسابی کی وہیں اس کے خاتمے کی فکر نے جڑ تھامی جس پہ مصنف نے نہایت موزوں انداز سے غفلت کے خاتمے کی سعی کرنے والوں کے لیے تجاویز پیش کی ہیں۔ علم سیکھنا، تواتر سے اللہ کا ذکر کرنا، اللہ کے نیک بندوں کی صحبت میں بیٹھنا، مجالس ذکر اللہ میں شرکت کرنا، خوش الحانی سے قرآن پاک پڑھنا، اللہ سے گڑگڑا کر غفلت جیسے مرض سے نجات اور صراطِ مستقیم پہ گامزن رہنے کی دعائیں مانگنا، نمازِ با جماعت کی پابندی کرنا، صدقہ و خیرات میں کثرت، تقوی و پرہیز گاری کا دامن تھامنا، دنیا سے بے رغبتی برتنا، آخرت کا استحضار رکھنا، مصائب قبر کو یاد کرنا، اللہ والوں کی صحبت سے فیض پانا اور دین کی اشاعت میں سر گرم رہنا غفلت دور کرنے کے عملی طریقے ہیں۔ جب کہ انعاماتِ الٰہیہ کو یاد کرنا، قوتِ ارادی کی مضبوطی، نظام الاوقات کو ترتیب دینا اور وظائف کی بہتات غفلت کے خاتمے کے نفسیاتی طریقے ہیں۔ ہمیں ان دونوں طریقوں سے ہی غفلت کے سدِباب کی کوشش میں رہنا چاہیے۔ اللہ تعالی تمام عالمِ اسلام اور امتِ مسلمہ کو غفل کے مرض سے نجات عطا فرمائیں اور مصنف کی اس کاوشِ عظیم کو ان کے لیے دونوں جہاں میں خیر و برکت کا باعث بنائیں۔ آمین!


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں