کامیاب زندگی گذارنے کے لیے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں اپنے مزاج کے برعکس بہت کچھ برداشت کرنا پڑنا ہے ۔حقیقتوں سے آگاہی،حالات سے سمجھوتہ اور اچھے برے کی پہچان کرنا پڑتی ہے ۔نرمی ، ہمدردی ، خیر خواہی کے جذبات سے معمور ہونا اور تلخ کلامی ، طعن و تشنیع سے بچنا پڑتا ہے ۔
عورت چونکہ نہایت جذباتی ہوتی ہے ،دین اور عقل و خرد کے اعتبار سے کمزور ہے اس لیے زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے صبر و سکون شفقت اور دلسوزی کے ساتھ حالات سدھارنے کی ضرورت ہوتی ہے جس سے حالات پرمسرت اور مستقبل خوشگوار بنایا جاسکتا ہے ۔
ازدواجی تعلق کی سب سے مضبوط بنیاد جذبہ محبت ہے۔ یہ جذبہ موجود ہوتو میاں بیوی گلستان ہستی میں اکٹھے محوخرام ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے مقصد اعلٰی یعنی تربیت اولاد پر اچھے اثرات بھی مرتب کرتے ہیں ۔
محبت مفقود ہوتو تعلق ایسے ہوگا جیسے دو اجنبی سفر کے دوران ریل گاڑی میں ملے ہوں ۔اس لیے شوہر کے لیے ضروری ہے کہ بیوی کے ساتھ خوش اخلاقی اور پیارومحبت سے پیش آۓ کیونکہ اہل و عیال کو خوش رکھنا بھی نبی ﷺ کے نزدیک دینی خدمت ہے ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “ان من اکمل الموٕمنین ایمانا احسنھم خلقا والطفھم باھلہ” ( ترمذی ،کتاب الایمان باب٦) کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہوں۔ یہ بات ماننی پڑے گی کہ آج ہمارے معاشرے میں بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا پلڑا بہت ہلکا ہوگیا ہے۔ شوہر اپنی حاکمیت کے مظاہرے کے لیے تو ہر وقت آمادہ نظر آتے ہیں لیکن حسن سلوک کے معاملے میں تہی دست ہیں۔
ازداجی رشتوں کو استوار رکھنے اور خانگی زندگی میں قوس وقزح کا رنگ بھرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ خاوند اپنی بیوی کے لیے مناسب اور موزوں سامان تفریح فراہم کرے ۔ ایک مرتبہ پیارے نبی ﷺ نے عید کے موقع پر گھر کی دیوار کی اوٹ سے حضرت عاٸشہ ؓ کو حبشیوں کی جنگی ورزش کا منظر دکھایا تھا (بخاری و مسلم )
محبت پیار کے اظہار میں کیے گئے چھوٹے چھوٹے فعل بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کثیر کا باعث بنتے ہیں ۔اگر شوہر محبت سے روٹی کا ایک لقمہ اپنے ہاتھ سے بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے تو اس کا شمار بھی عبادت میں ہوگا۔ بیوی کو پانی کا گلاس اپنے محبت بھرے ہاتھوں سے پلانا بھی شوہر کے لیے موجب ثواب ہے ۔نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق جب ایک شوہر اپنی بیوی پر پیار بھری نظر ڈالتا ہے اور بیوی بھی اس کی نظر کا ویسا ہی جواب دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کی بارش برساتا ہے ۔
سچی محبت کا بندھن جو شوہر اور بیوی میں ہونا ایک قدرتی امر ہے خاوند کو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی وقت بھی بیوی پر غصہ سے چیخے چلاۓ ۔یہ شوہر کی بزرگی اور رتبے کے منافی ہے کہ وہ ایسا رویہ اپنائے۔
اسے تو چاہیے کہ اپنے خوشگوار رویے سے گھر میں چاروں طرف خوشیاں بکھیردے کہ اسے دیکھتے ہی بیوی بچوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھیں۔ خوشگوار محبت بھرا ماحول اللہ تعالیٰ کی رحمت کو دعوت دیتا ہے ۔
شوہر پر فرض ہے کہ خاندان میں محبت پیار قائم رکھے ۔وہ محبت کے بندھن میں شگاف نہ پڑنے دے ۔بیوی کی حماقتوں اور معمولی لغزشوں پر غم و غصہ کا اظہار نہ کرے کہ محبت کے دریا میں تلاطم آجائے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بڑے رتبے سے نوازا ہے ۔عورت سے زیادہ عقل و شعور دیا ہے ،تحمل و بردباری میں اس سے زیادہ ہے اور دماغی صلاحيتوں میں وہ بیوی سے بڑھ کر ہے۔
اولیائے کرام نے کہا ہے کہ خاوند جب بیوی کے ناروا سلوک کا تحمل سے سامنا کرتا ہے تو وہ غازی یا مجاہد کا رتبہ پاتا ہے جو میدان جنگ سے فاتح بن کر آیا ہو ۔
”طاقتور وہ نہیں جو دوبدو لڑائی میں دوسرے کو زیر کرلیتا ہے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے “
اللہ تعالیٰ ہمیں تعلیمات پیغمبر آخرالزمان حضرت مُحَمَّد ﷺ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔آمین
