آدم رضوی
پاکستان دنیائے اسلام میں وہ واحد ملک ہے جو ایک نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا اور تعینِ رقبہ کا مسئلہ آج تک درپیش ہے کوئی بھی ملک دنیا کے سامنے کسی رقبے کی بنیاد پر درپیشِ مسائل نہیں ہوتا – آج اگر کسی ملک میں کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ زیرِ غور ہے تو وہ اسکے نظریے کی زیرِ نظر ہے کیونکہ کشمیر اس لیے مسائل میں نہیں پھنسا ہوا ہے کہ اسکے علاقے سے پاکستان کا رقبہ بڑھے یا پھر ہندوستان کا- بلکہ اس مسئلے کی بنیاد مذہب ہے اور پوری دنیا کو معلوم ہے کہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہی کیا بلکہ تقریباً پورا کشمیر عاشقانِ رسول صلی اللّہ علیہ وسلم سے سرشار ہے تاریخ نے ہمیشہ مسلمانوں کے جیت کے فیصلے کا اندازہ اس بات سے لگایا کہ جہاں یہ آباد ہونگے وہاں ایک دن ان کی حکمرانی ہوگی!
تو اس حساب سے بکثرتِ مسلمنان ِکشمیر وہ دن بھی دور نہیں کہ وہیں پر مسلمانوں کی حکومت نظر آئے اور چونکہ مسلمانانِ کشمیر پیارے پاکستان کے حامی ہیں تو انشاءاللّہ عزوجل پاکستان کے مقدر میں ہی کشمیر لکھا جائے گا نظریہ پاکستان 1929، 1935 ، 1940 یا پھر 1947 کی بات نہیں بقولِ قائد اعظم رحمت اللّہ علیہ پاکستان اس دن معرضِ وجود میں آئی تھی جب برصغیر کا پہلا ہندو مسلمان ہو گیا تھا تاریخِ ہند میں 712 عیسوی سے یہ بات ثابت ہوئی کہ “سندھ و دیگر علاقائے ہند ” مسلمان حکمرانوں کے منتظر ہیں – محمد بن قاسم کے تشریف آوری سے اسلام کی مبشریت تو ظاہر ہو چکی تھی اور راجہ داہر کے شکست نے بھی یہ ثابت کر دیا کہ مستقبل مسلمانوں کا ہی ہے یہ زمانہ برصغیر میں مسلمانوں کے عروج کی شروعات ہی تھا وقت کے ساتھ مسلمان حکمران اپنی ملت کے عقیدت و سیاست کو ایک پرجوش انداز میں اظہار کرنے لے لیے ایک الگ ریاست کے قیام کےلیے ابھارتے رہے – اور یوں 1707 عیسوی وہ سال آیا جس میں مسلمانوں کے بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا شہادت مسلامانوں کے حکومت کو ایک الوداعی پیغام دے کر چلا گیا مگر اللّہ کی رحمتیں اسی اثناء میں نواب سراج الدولہ ، ٹیپو سلطان ، شاہ ولی اللّہ اور امیر سید احمد شہید بریلوی جیسے فقہ اسلام نے اسلام کے سپاہیوں کے سالار بن کے دامن تھاما اور ایک الگ ریاست اور نظریہ اسلام پاکستان کو بنیاد بنا کر منزلیں طے کرتے آئے اور پھر سر سید احمد خان مسیحیء ایمان بن کے مسلامانوں کے حامی نظر آئے اور مختلف تحریکیں اور مذہبی و سیاسی و ثقافتی منزلیں پاس کرتے ہوئے علامہ اقبال جیسے مفکر ء اسلام سے جاملے اور انہوں نے تو ایک ہموار راستہ دکھایا کہ اگر اس نظریے پے ٹِکے رہے تو دینِ اسلام کا ایک قلعہ اسی نظریے پہ پاکستان کی صورت میں نظر آئے گا اور یہاں سے بنیادی نظریہ پاکستان منظرِ عام پر ابھرا اور 14 اگست 1947 کا دن ہی محمد بن قاسم اور دیگر ہمت کاروں کے محنت کا صلہ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے پاکستان کو قوم و ملت کے دائمی کے لئے شرف بخشا برصغیر کے لوگ اسی موڑ کو ہی مسلامانوں کا دوسرا دور سمنجھنے لگے –
مگر افسوس! کہ ہمارے اقابرین کے تمام سوچ و فکر کو پانی پھیرتے ہوئے مختلف سیاست دان اور ترقی کے زمہ داران اس نتیجے پر پہنچے کہ آج کے پاکستان معاشی بحران کےلیے پریشان نظر آرہی ہے آج عوامِ پاکستان یا پھر کسی عظیم شخصیت میری مراد کسی سیاست دان یا عوامی رہنما سے نظریہ پاکستان کے بارے میں پوچھا جائے تو مجھے نہیں لگتا کہ انہیں نظریہ پاکستان کے “ن” کا بھی علم ہو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ایک لمحے کیلیے بھی ہم اگر سوچیں ، کیا پاکستان بننے کا مقصد صرف حصولِ اقتدار ہے ؟ کیا پاکستان کے نظریے میں یہی بات زیرِبحث تھی کہ پاکستان میں سیاسی انتقام کے سمندر بچھائے جائیں؟؟ اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ 1951 عیسوی یعنی قائدِ ملت لیاقت علی خان کے وفات سے لیکر آج تک چاہے پی پی پی کی صورت میں ہو – وہ چاہے آمریت کی شکل میں ہو یا پی ایم ایل این یا پھر پی ٹی آئی کی صورت میں ہو سب سیاسی انتقام اور برسرِ اقتدار ہونے کی بھگدڑ میں ہی گم ہوگئے ہیں – ہم جتنا چاہیں سر پیٹتے رہیں اللّہ ہی ہمارے قوم و ملت اور ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو ورنہ آج کے سیاست نے نظریہ پاکستان اور ملک و ملت کے بربادی کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی-
بچی کی لاش ابھی تک نہیں ملی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوئ کے علاقے عنایت شاہ کے قریب گزشتہ پیر کو ایک کار سیلابی ریلہ میں بہہ گیا جس میں دومیڈیکل کے طلبہ اور ان کا بھائی ڈریور سمیت پانی کی زد میں آ کے بہہ گئے خوش قسمتی سے ان میں دو توزندہ بچ گئے جنہیں مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ نکال لیا مگر ڈرائیور کی لاش تین بعد ملا لکین پانچ دن گزرنے کے باوجود بھی سانحہ سوئی نالہ میں شہید ہونے والی بچی کی میت نہ نکالی جا سکی۔ لواحقین اپنی مدد آپ کے تحت کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں مگر اب تک تمام کوششیں لا حاصل رہی ہیں۔ اور ہماری پاکستان کی تمام فلاحی اداروں اور خصوصاً وزیر اعلیٰ بلوچستان جناب عبد القدوس بزنجو صاحب سے گزارش ھے کہ فل فور مشینری کے ساتھ ٹیم بھیج دے تاکہ جلد ہی میت کو نکال لیا جاۓ اور سا تھ ہی ڈی سی ڈیرہ بگٹی اور اے سی سوئی صاحب عملی طور پر میت نکالنے میں سنجیدگی دیکھایں انتظامیہ سے دست بستہ عرض ہے کہ برائے خدا انسانیت کے ناطے عملی طور پر کچھ بندوبست کریں تاکہ بچی کی میت ملے اور لواحقین کے دل کو تسلی ملے،
ڈاکٹر ظفر بگٹی