107

مسئلہ ناموس صحابہؓ و اہلبیت/تحریر/محمد ہاشم

ناموس صحابہ ؓ و اہلبیت ؓ بل ملک میں زیر بحث ہے۔الیکٹرانک پرنٹ میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر ملک کی مختلف شخصیات محو گفتگو نظر آتی ہیں۔توہین صحابہ و اہلبیت پر سزاء کا پہلا قانون جنرل ضیاءالحق مرحوم نے 298 A کے تحت تین سال قید سزاء کے زریعے کیا۔ایرانی انقلاب کے بعد پھیلنے والی کتب اور نظریات کے سامنے سزاء کم ثابت ہوئیں۔قومی اسمبلی میں اس عنوان پر پہلی آواز جھنگ کے ایم این اے مولانا ایثار قاسمیؒ نے 1990 میں بلند کی۔لیکن انہیں جلد شہید کردیا گیا۔
یہ دور ملک میں خانہ جنگی قتل و قتال کے عروج کا دور رہا۔اس کی وجوہات میں دیگر پہلوؤں کے ساتھ شعیہ سنی مسئلہ بھی شامل رہا جس میں بنیادی نقطہ توہین صحابہ پر مبنی لٹریچر تھا۔ہر دور حکومت میں اس موضوع پر دونوں فریقین کو آمنے سامنے بیٹھا کر مسئلہ حل کرنے کیلئے کوششیں ہوتی رہی۔جس میں مولانا عبدالستار خان نیازی مرحوم کا کردار اور ملی یکجہتی کونسل کا قیام شامل ہے۔لیکن مسئلہ جون کا تون رہا۔2003 میں پہلی بار مولانا اعظم طارق شہیدؒ نے قومی اسمبلی میں ناموس صحابہ ؓ و اہلبیت بل پیش کیا۔لیکن عین بل کی منظوری کے وقت انہیں بھی راستے سے ہٹا دیا گیا۔قانونی جہدوجہد کا میدان ایک بار پھر خالی ہوگیا لیکن جہدوجہد جاری رہی۔2009 سے قبل یہ مسئلہ پاکستان کی عدالت میں جا پہنچا۔ جسٹس سید سجاد علی شاہ نے فریقین کو بلا کر موقف سنا سرپرست اہلسنت والجماعت پاکستان علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ نے دلائل کے انبار کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا۔توہین آمیز کتب اور عبارات کو دیکھ و سن کر جسٹس سجاد علی شاہ کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہوگئے انہوں نے مسئلہ حساسیت کو سمجھتے ہوئے اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کا ارادہ کیا۔لیکن وہ بھی اپنے منصب سے ہٹا دیئے گے۔مسئلہ کے حل کی امید ایک بار پھر ٹوٹی۔وقت آگے بڑھا اور ایم پی اے مولانا معاویہ اعظم طارق نے 2022 میں پنجاب اسمبلی میں تحفظ بنیاد اسلام بل پیش کیا جو اتفاق رائے سے پاس ہوا لیکن افسوس مزید آگے نہیں جاسکا۔
اسی دوران دوسری طرف کراچی شہر میں روڈ پر نماز ظہرین میں میڈیا کی موجودگی حضرات صحابہؓ اکرام کی توہین ہوئی۔یہ پہلی یا آخری بار نہیں بلکہ ہر ماہ ملک کے مختلف شہروں میں سلسلہ جاری ہے جس پر سینکڑوں نہیں ہزاروں ایف آئی آر درج ہیں واقعہ کراچی اور مسلمانان پاکستان کے جذبات مجروح ہوئے۔علماء و اکابرین تڑپ گے ملک بھر مدح صحابہ اور دفاع صحابہؓ تحریک کا آغاز ہوا۔قیادت میں شیخ الحدیث مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم عالیہ ,ڈاکٹر عادل خان شہیدؒ ,مفتی منیب الرحمن ,علامہ اہتشام الہی ظہیر اور مولانا محمد احمد لدھیانوی جیسی قد آور شخصیات تھیں۔ملکی تاریخ میں پہلی بار دیوبندی بریلوی اہلحدیث مکاتب فکر کا اتحاد اس عنوان سے سامنے آیا۔ملک کے بڑے شہروں میں لاکھوں کی تعداد پر مشتمل عوام الناس کے مارچ ہوئے۔ملک کی عسکری قیادت اور حساس ادارے فکر مند ہوئے اجلاس بلائے گے دو طرف موقف سننے کے بعد قانون سازی کے عہد و پیمان ہوئے۔لیکن یہ سب اکتوبر 2022 میں تحریک کے روح رواں مولانا ڈاکٹر عادل ؓ کی شہادت کے ساتھ سرد پپڑگیا۔ نئے عزم کے تحت جنوری 2023 میں جماعت اسلامی کے ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترالی نے قومی اسمبلی میں توہین صحابہ ؓ و اہلبیت ؓ بل پیش کیا۔اسمبلی میں موجود PDM کی تمام سیاسی مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے متفقہ طور پر بل کو منظور کیا۔بل اسلامی نظریاتی کونسل میں گیا ممبران اسلامی نظریاتی کونسل (تمام مکاتب فکر) نے بحث و تحقیق کے بعد منظوری پر تائید کی۔سینٹ آف پاکستان سے بھی بل اتفاق رائے سے پاس ہوا لیکن صدر پاکستان جناب عارف علوی کے دستخط کے معاملہ کے ساتھ بل سرد مہری کا شکار ہوا پڑا ہے۔ اب ایک بار پھر ملک بھر میں ناموس صحابؓہ و اہلبیتؓ کیلئے آوازیں اٹھنا شروع چکی ہیں۔ستمبر 2023 کی ابتداء کراچی میں دفاع صحابہ ؓ و استحکام پاکستان مارچ کا تاریخی انعقاد کیا گیا جس مسلک ثلاثہ شریک ہوئے ایک بار پھر قانون سازی کیلئے مطالبہ کیا ہے۔اسی طرح 17 ستمبر کو اسلام آباد میں راولپنڈی اسلام آباد کی سطح پر تاریخ سازی دفاع صحابہ ؓ و دفاع پاکستان مارچ کا اہتمام ہوا جس میں دوبارہ بل پر دستخط اور قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا۔اسی طرح 6 اکتوبر جھنگ ,اسلام آباد سندھ میں اجتماعات کا اعلان ہو چکا ہے اسی سلسلہ میں اسلام آباد موجود مولانا قاضی عبدالرشید جنرل سیکٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی سرپرستی میں متحدہ سنی کونسل کی تشکیل دی گئی ہے جس تحت جلد اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس اور دفاع صحابہ و
اہلبیت مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔

1979 میں ایرانی انقلاب سے لیکر 2023 تک کے حالات کے تناظر میں ملک بھر میں فرقہ واریت کے خاتمہ اور امن و استحکام کیلئے قانونی سازی ناگزیر ہے۔لیکن اس سارے پس منظر کے تحت نتیجتاً یہ حقیقت سامنے آتی ہے اس مسئلہ میں ارباب اقتدار کی سنجیدگی بہت اہم ہے ملک میں ہر دور میں مختلف طرز پر قانون پاس ہوتے رہتے لیکن اس مسئلہ پر قوم کو ہمیشہ وقت گزاری کی پالیسی دی گئی ہے۔جبکہ اس مسئلہ عرصہ دراز سے اکابرین و علماء اہلسنت نے عدالت سے لیکر پارلیمنٹ تک ہر فورم پر بیٹھنے کا اعلان کیا ہے۔انشاءاللہ ایک وقت آئے گا اس موضوع پر ارباب اقتداء کو قانون سازی کرنا ہوگی اس بغیر ملک میں امن ناممکن ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں