تحریر: حکیم شاکر فاروقی
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: ”معاشرے میں بگاڑ کے ذمہ دار پانچ طبقے ہیں:علماء کرام، تاجر، فوج، عبادت گزار اور حکام۔” غور کیا جائے تو یہ معاشرہ کی گاڑی کو چلانے والی وہ چین ہے جس کی ایک کڑی بھی خراب ہو جائے یا اپنی جگہ سے ہل جائے تو گاڑی چلنا محال ہو جاتا ہے۔ پھر اس چین کو چالو حالت میں رکھنے کے لیے عدالت کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ یہ ہر ایک کو اس کا دائرہ کار سمجھاتی اور راہ عمل بتاتی ہے۔ علماء کرام کا کردار ماہر نباض حکیم جیسا ہوتا ہے جو معاشرے میں خرابی کا نہ صرف پتا بتاتے ہیں بلکہ اس کا حل بھی پیش کرتے ہیں۔ تاجر برادری اس بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے اسباب و وسائل مہیا کرتے ہیں۔ حکام بروقت فیصلہ کرتے ہوئے حکم جاری کرتے ہیں تاکہ اسے نافذ کیا جا سکے۔ فوج اور زاہد لوگ اس فیصلے کے اجراء میں معاونت کرتے ہیں۔ فوج جبرا فیصلہ نافذ کرتی ہے جب کہ عابد و زاہد اور صوفیاء روحانی طور پر دعاؤں اور اندرونی اصلاح میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ عدلیہ ان تمام طبقات کو منصفانہ طور پر امور سرانجام دینے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان تمام کڑیوں کو کھسکانے، ان کے خلاف ماحول پیدا کرنے اور ان کا مقام گرانے کی سازش ہو رہی ہے۔ سب سے پہلے تو علماء کرام کی اہمیت گھٹانے اور کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہیں معاشرے پر بوجھ، جاہل اور بے کار ثابت کر کے ان کا کردار محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہیں مساجد و مدارس کے گنبد میں بند کرنے کے حیلے کیے گئے۔ حتی کہ عوام الناس اس طبقے کو اس سنکی بوڑھے جیسا سمجھنے لگے جو ہر وقت اول فول بکتا رہتا ہے۔ لوگ ان کی بات ایک کان سے سن کر دوسری جانب سے نکالنے لگے۔ عابد و زاہد طبقے کو ذاتی مفاد کے لیے دعائیں کروانے اور مشکل وقت میں تھوڑی دیر کے لیے سکون کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور اب تو موٹی ویشنل سپیکرز ان لوگوں کی جگہ لینے لگے ہیں۔ باقی رہا حکمران طبقہ اور فوج… تو اب ان دونوں طبقوں کو دیوار سے لگانے کی بھرپور سازش ہو رہی ہے۔ عدالتوں میں ان پر کرپشن کے کیس چل رہے ہیں اور ہر عوامی مقام پر ان کی رشوت ستانی و ضمیر فروشی کے قصے ڈسکس کیے جا رہے ہیں۔ حتی کہ وہ لوگ بھی زیر بحث لائے جا رہے ہیں جن کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ دامن اگر نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ ذرا سوچیں! عوام کا اعتماد ان سے بھی اٹھا دیا گیا تو پیچھے کیا رہ جائے گا؟ باقی رہ گئی عدلیہ تو وہ اکیلی کیا کر سکتی ہے جب معاشرے کے تمام کل پرزے ہی خراب ہو چکے ہوں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ تمام طبقے اپنا اپنا قبلہ درست کرتے ہوئے آپس میں اتحاد و اتفاق اور یگانگت والی فضا پیدا کریں۔ محض ملک و ملت اور اپنی آنے والی نسلوں کے مفاد کی خاطر ایک پیج پر کھڑے ہو جائیں۔ وقتی طور پر ایک دوسرے کی غلطیاں بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ ذاتی رنجشوں کو چند سالوں کے لیے ایک جانب رکھ دیں۔ ماضی میں کی گئی سب کی غلطیوں کو وقتی طور پر ایک جانب رکھ دیا جائے۔ مل کر مضبوط فیصلے کریں اور پھر ان فیصلوں کو نافذ کرنے میں سر دھڑ کی بازی لگا دیں۔ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کی گزشتہ دنوں کی جانے والی ٹویٹ اس تالاب میں پہلے پتھر جیسی حیثیت رکھتی ہے۔ جس میں انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنے کی تلقین کی ہے۔ باقی لوگ بھی اس کو سنجیدہ لیں اور اپنی اپنی رائے پیش کریں۔ ان شاء اللہ العزیز وطن عزیز بہت کم عرصے میں سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی بحران سے نکل کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا۔ یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ اگر مشکل ہے تو فقط اتنا کہ فوری طور پر اپنی اپنی انانیت کے بت کو توڑنا ہوگا۔ لیکن اگر عزم مصمم ہو، ارادے غیر متزلزل ہوں تو یہ مشکل ایسی مشکل بھی نہیں۔ کیوں کہ
ارادے جن کے پختہ ہوں، نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
* * *