
تحریر/مولانا ڈاکٹر محمد جہان یعقوب
29 اگست 1965 کی بات ہے، جب عزیز بھٹی اپنے اہل وعیال کے ساتھ چھٹیاں گزار رہے تھے تو انھیں یونٹ واپس بلا لیا گیا، جنگی حالات سر پر منڈلا رہے تھے وہ یونٹ آنے کی تیاری کرنے لگے، جب کھانے کے میز پر ان کی بیوی نے افسردہ لہجے میں پوچھا کہ جنگ ختم ہو گئی تو وہ واپس آ جائیں گے؟ عزیز بھٹی نے مسکرا کر جواب دیا:پریشان کیوں ہوتی ہو، تمھیں معلوم تو ہے کہ ایک فوجی کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ان کا چھوٹا بیٹا ذوالفقار معصومیت سے بولا: ابا جان! کیا جنگ ہونے لگی ہے؟عزیز بھٹی نے جواب دیا:جی ہاں! شاید حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں لگ رہے؛ تو وہ معصومیت سے مکا ہوا میں لہراتے ہوئے بولا :پھر کبھی دشمن کو پیٹھ نہ دکھانا ۔میجر نے اس کا ماتھا چوما اور اس سے کہا : پھر یہ بھی وعدہ کرو کہ میں شہید ہوجاؤں تو میری لاش پر نہیں رونا ،پھر اپنی بیوی اور بیٹے سے کیا گیا وعدہ وفا کرنے میدان جنگ میں پہنچ گئے۔جب دشمن لاہور پر حملہ آور ہوا تو اس وقت میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر کے علاقے برکی میں کمپنی کمانڈر تعینات تھے۔میجر عزیز بھٹی مسلسل پانچ دن تک بھارتی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے، 12 ستمبر 1965 کو بھارتی ٹینک کا گولہ چھاتی پر کھایا اور جام شہادت نوش کیا۔انھوں نے رات بھر دشمن کو روکے رکھا۔ صبح کے قریب دشمن نے نہر کی طرف سے بھی گاؤں کو محاصرے میں لے لیا تو میجر عزیز بھٹی نے نہر کے مغربی کنارے پر چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ 21 ستمبر کی صبح وہ اپنی جان کا خوف کیے بغیرہر قسم کے خطرات سے بے نیاز ، نہر کے کنارے ایک اونچی اور کھلی جگہ پر کھڑے جوانوں کی قیادت کر رہے تھے کہ اسی مقام پر لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ بہادری کی بے مثال روایت قائم کرنے پر انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر دیا گیا۔
قصورکامحاذ:
بھارتی ہائی کمانڈ نے قصور کی طرف پیش قدمی کامیاب بنانے کے لیے بھیکی ونڈ اور کھیم کرن کے نواح میں تقریباً دو ڈویژن فوج صف آرا کی۔ اس محاذ پر ضلع لاہور کے سرحدی گاؤں ’بیدیاں‘ کو پیش قدمی کے آغاز کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ اس رات یہاں پاکستانی فوج کی صرف ایک بٹالین موجود تھی،البتہ اگلے دفاعی مورچوں میں فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کی ایک کمپنی صف آرا تھی۔ یہاں دشمن نے چودہ بڑے حملے کیے، مگر پاکستانی جوانوں نے انہیں ایک انچ آگے بڑھنے نہ دیا۔
کھیم کرن پر پاکستان کاقبضہ:
قصور کے بعد دشمن نے کھیم کرن کے محاذ پر اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کیا۔ بھارتی فضائیہ بھی محاذ پر آ گئی مگر پاکستانی طیارہ شکن توپوں سے وہ جلد ہی پسپا ہو گئی۔ دشمن کے سات ٹینک تباہ ہوئے تو اس کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ 8 ستمبر کو کھیم کرن پر پاکستان کا قبضہ ہو گیا۔بھارتی کمانڈر انچیف نے پسپا ہوتی ہوئی فوج کو مزید کمک بھیجی تاکہ کھیم کرن واپس لے سکے۔ کھیم کرن کے قریب 358 بھارتی سپاہیوں نے ہماری فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، ان کا تعلق چوتھی رجمنٹ سے تھا اور ان میں بیشتر سکھ تھے۔
سلیمانکی ہیڈ ورکس کی حفاظت:
ضلع ساہیوال میں بین الاقوامی سرحد سے اندازاً ایک میل اُدھر دریائے ستلج پر’ سلیمانکی ہیڈ ورکس‘ واقع ہے،یہاں سے نکلنے والی نہریں ملتان اور بہاولپور کے وسیع علاقوں کو سیراب کرتی ہیں، اس اہم خطے پر دشمن کی طرف سے حملے کا خطرہ تھا،چنانچہ ہماری افواج نے دشمن کی پیش قدمی کا انتظار کرنے کے بجائے آگے بڑھ کر دشمن کے حوصلے پست کر دیے۔
پسپادشمن کی دفاعی پوزیشن:
موضع نور کی چوکی صرف ایک ہی پاکستانی پلاٹون نے شب خون مار کر فتح کر لی۔ ان مقامات پر شکست کھانے کے بعد دشمن نے موضع پکا میں دفاعی پوزیشن لے لی، اس کے پاس ہر قسم کا اسلحہ موجود تھا۔ دونوں فوجوں کے درمیان سیم زدہ دلدلی علاقہ اور ایک جھیل حائل تھی۔ پاکستانی فوج کی ایک کمپنی نے توپوں اور مشین گنوں کی اندھا دھند فائرنگ سے دشمن کی یلغار روک دی۔ جنگ بندی ہونے ہی والی تھی کہ دشمن نے ایک بار پھر بھرپور حملہ کیا ،جس پر دشمن کے ڈیڑھ سو آدمی مارے گئے۔