76

کسی کو پرکھھنے میں جلدی مت کیجٸے/تحریر/رفیع صحراٸی

انگریزوں کی اندھی تقلید میں ہم نے ان کی روایات اور تہذیب اپنانے میں فخر محسوس کرنا شروع کر دیا اور اپنی خوب صورت تہذیب اور اعلیٰ روایات سے دور ہوتے چلے گٸے۔ یہ الگ بات کہ ان کی اندھی تقلید میں ہم کوے بنے نہ ہی ہنس رہے۔ ہم دونوں کے درمیان کی کوٸی چیز بن کر رہ گٸے۔ انگریز محنتی قوم ہیں۔ وہ اپنے کام اور ڈیوٹی سے مخلص ہوتے ہیں۔ جب کام میں مصروف ہوں تو دوپہر کے کھانے کو گول کرکے ایک آدھ برگر کھا لیتے ہیں اور رات کے کھانے تک گزارا کرتے ہیں۔ برگر کو ہم نے بھی اپنا لیا ہے مگر کچھ اس طرح سے کہ دو دوست جب تین تین برگر بیک وقت کھا لیتے ہیں تو ان میں سے ایک بولتا ہے۔” یار اب بس بھی کر، گھر چل کر روٹی بھی تو کھانی ہے“انگریزی کا ایک مقولہ ہے“First impression is the last impression.”(پہلا تاثر ہی آخری تاثر ہوتا ہے)ہم نے اس مقولے کو پلے باندھ لیا اور چند منٹ میں ہی کسی کی شخصیت کے بارے میں جامع تاثر قاٸم کرنا شروع کر دیا۔ یہ کہنا شروع کر دیا کہ ”دیگ کے ذاٸقے کو جاننے کے لٸے ایک چاول چکھنا ہی کافی ہے“حالانکہ یہ موازنہ کسی طور بنتا ہی نہیں۔ انسان ایک جیتا جاگتا فرد ہوتا ہے۔ حالات کے مطابق اس کی شخصیت میں اتار چڑھاٶ آتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ سخت غصے میں ہوتا ہے تو کبھی انتہاٸی پریشان اور غمزدہ، کبھی وہ بے حد خوش ہوتا ہے تو کبھی مایوس و دل گرفتہ۔ اس کی زندگی مختلف پہلوٶں سے عبارت ہے۔ کسی ایک حالت میں دیکھ کر اس کی شخصیت کے تمام پہلوٶں کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کو سمجھنے کے لٸے مندرجہ ذیل واقعہ مددگار ثابت ہو گا۔”ایک آدمی کے چار بیٹے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے بیٹے یہ سبق سیکھ لیں کہ کسی کو پرکھنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہٸے۔ اس بات کو سمجھانے کے لٸے اس نے اپنے بیٹوں کو ایک سفر پر روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کسی دور دراز علاقے میں انہیں ناشپاتی کا ایک درخت دیکھنے کے لٸے بھیجا۔ اس نے ایک وقت میں ایک بیٹے کو درخت دیکھنے کے لٸے روانہ کیا۔ باری باری سب کا سفر شروع ہوا۔ پہلا بیٹا سردی کے موسم میں گیا، دوسرا بہار میں، تیسرا گرمی کے موسم میں اور سب سے چھوٹا بیٹا خزاں کے موسم میں وہاں گیا۔جب سب بیٹے اپنا اپنا سفر ختم کر کے واپس لوٹ آٸے تو اس آدمی نے اپنے چاروں بیٹوں کو ایک ساتھ طلب کیا اور سب سے ان کے سفر کی الگ الگ تفصیل بیان کرنے کو کہا۔ پہلا بیٹا جو جاڑے کے موسم میں اس درخت کو دیکھنے گیا تھا اس نے بتایا کہ وہ درخت بہت بدصورت، ٹیڑھا سا اور جھکا ہوا تھا۔ دوسرا بیٹا اس کی بات کاٹ کر بولا، ”نہیں نہیں، وہ درخت تو بہت ہرا بھرا اور سرسبز پتوں سے ڈھکا ہوا تھا“۔ تیسرے نے ان دونوں سے اختلاف کرتے ہوٸے بتایا کہ وہ درخت تو پھولوں سے بھرا ہوا تھا اوراس کی مہک دور دور تک پھیلی ہوٸی تھی۔ سب سے چھوٹے بیٹے نے اپنے تینوں بھاٸیوں سے اختلاف کرتے ہوٸے بتایا کہ وہ ناشپاتی کا درخت تو پھلوں سے لدا ہوا تھا اور پھل کے بوجھ سے اس کی ٹہنیاں زمین کو چھو رہی تھیں۔ بیٹوں کی باتیں سن کر باپ مسکرایا اور کہا”تم چاروں میں سے کوٸی بھی غلط نہیں کہہ رہا۔ سب اپنی جگہ درست ہیں“۔بیٹے اپنے باپ کی بات سن کر حیران ہوٸے کہ ایسا کس طرح ممکن ہے۔ باپ اپنی بات جاری رکھتے ہوٸے بولا، ”تم کسی بھی درخت یا شخص کو صرف ایک موسم یا حالت میں دیکھ کر اس کے بارے میں کوٸی حتمی فیصلہ یا راٸے قاٸم نہیں کر سکتے۔ کسی کو جانچنے کے لٸے تھوڑا وقت درکار ہوتا ہے۔ انسان کبھی ایک کیفیت میں ہوتا ہے تو کبھی کسی دوسری کیفیت میں۔ اگر درخت کو جاڑے کے موسم میں تم نے بے رونق دیکھا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس پر کبھی پھل نہیں آٸے گا۔ اسی طرح اگر تم کسی شخص کو غصے یا بدعملی کی حالت میں دیکھ رہے ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ شخص ضرور برا ہی ہو گا۔“باپ نے بات آگے بڑھاتے ہوٸے کہا، ” کبھی بھی جلد بازی میں کسی کے بارے میں کوٸی فیصلہ نہ کرو جب تک اس کو اچھی طرح جانچ نہ لو۔ کسی کو اسی وقت سمجھا یا پرکھا جا سکتا ہے جب یہ تمام موسم گزر جاٸیں۔ اگر تم سردی کے موسم میں ہی اندازہ لگا کر نتیجہ اخذ کر لو گے توگرمی کی ہریالی، بہار کی خوب صورتی اور بھرپور زندگی سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہ جاٶ گے۔ اس سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ کسی ایک دکھ یا پریشانی کی وجہ سے اپنی زندگی کی باقی خوشیوں کو داٶ پر مت لگاٶ۔ زندگی کے ایک برے موسم کو بنیاد بنا کر باقی زندگی کو مت پرکھو۔ وقت ایک چلتا پہیہ ہے، اوپر والی ساٸیڈ نیچے اور نیچے والی اوپر ضرور جاٸے گی“۔بیٹوں کو باپ کی بات اچھی طرح سمجھ میں آ گٸی۔اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں خیر و شر کا مادہ رکھا ہے۔ اس کی کیفیات میں بھی مختلف موسموں کی طرح اتار چڑھاٶ آتا رہتا ہے۔ ہمیں حسنِ زن رکھتے ہوٸے بدگمانی سے پرہیز کرنا چاہٸے۔ کسی ایک کیفیت میں مبتلا شخص کو دیکھ کر اس کی پوری شخصیت کو پرکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں