71

کیاعمران خان جلد رہا ہو پاٸیں گے؟/تحریر رفیع صحرائی

سیاست بڑا صبر آزما کھیل ہے۔ یہ کھیل کھلاڑی کے حوصلے اور صبر کو بار بار آزماتا ہے۔ کبھی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا کر کھلاڑی کی آزماٸش کرتا ہے اور کبھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا کر اس کا حوصلہ آزماتا ہے۔ سیاست توقعات کا کھیل ہے جس میں بہت سے نتاٸج غیرمتوقع بھی نکل آتے ہیں۔ یہاں زیرو سے ہیرو اور ہیرو سے زیرو بنتے دیر نہیں لگتی۔ یہ شطرنج سے بھی پیچیدہ کھیل ہے۔ ہر چال سوچ سمجھ کر اور مخالف کے متوقع ردِعمل کو سامنے رکھ کر چلنا پڑتی ہے۔ کامیاب سیاستدان وہی ہے جو شکست کھانے کے بعد گھبراتا نہیں ہے بلکہ اپنی شکست کو جیت میں بدلنے کے لٸے اپنی شکست کی وجوہات پر غور کرتا ہے۔ اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے اور دوبارہ جیت کے لٸے بھرپور پلاننگ کے بعد میدان میں اترتا ہے۔ اس سلسلے میں میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ وہ ڈوبتے رہے، ابھرتے رہے، ابھر ابھر کر ڈوبے اور ڈوب ڈوب کر ابھرے۔ انہوں نے اپنی کسی ناکامی کو جی کا روگ نہیں بنایا بلکہ ناکامی میں سے کامیابی کا راستا نکالا۔
عمران خان کو سیاست میں آٸے رُبع صدی ہو چلی ہے۔ آغاز کے بارہ تیرہ سال وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پاٸے مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ اس وقت سیاست میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف قدآور شخصیات تھیں۔ ان کے ہوتے ہوٸے کسی تیسری قوت کا ابھرنا بظاہر ناممکن دکھاٸی دیتا تھا۔ 2011 میں عمران خان کی مقبولیت کی رفتار میں تیزی آنا شروع ہو گٸی۔ مینارِ پاکستان پر منعقدہ جلسہ ان کی سیاست میں سنگِ میل ثابت ہوا۔ پھر 2014 کے دھرنے نے انہیں مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ مقبولیت کے ساتھ ساتھ انہیں قبولیت کی سند بھی مل گٸی۔ 2016 میں پاناما میں سے اقامہ نکلا جو نوازشریف کی سیاست کو نگل گیا۔ بے نظیر بھٹو بہت پہلے شہید ہو چکی تھیں۔ میاں نوازشریف کی تاحیات نااہلی کے بعد بظاہر عمران خان کے لٸے راستا صاف کر دیا گیا تھا لیکن خدشہ تھا کہ نواز شریف اگر 2018 کے الیکشن کی انتخابی مہم خود چلاٸیں گے تو ان کی پارٹی الیکشن جیت سکتی ہے چنانچہ نوازشریف کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ عمران خان اس کے باوجود حسبِ توقع کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ جہانگیرترین کا جہاز چلا، ق لیگ، ایم کیو ایم اور باپ پارٹی کے علاوہ شیخ رشید کو عمران خان کا اتحادی ہونے کا شرف ملا اور یوں عمران خان برسرِ اقتدار آ گٸے۔
اگر عمران خان کے دورِ حکومت کا جاٸزہ لیا جاٸے تو ساڑھے تین سال میں انہوں نے ملکی تاریخ کے سب سے بھاری قرض لٸے۔ مہنگاٸی اتنی بڑھی کہ پی ٹی آٸی کہ کارکن بھی بددل ہو کر عمران خان کا دفاع کرنا چھوڑ گٸے۔ عمران خان نے تمام ملبہ گزشتہ حکومت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی بھرپور کوشش کی۔ اس دوران انہوں نے اپوزیشن کی تقریباً تمام لیڈرشپ کو جیلوں میں ڈال دیا اور تواتر کے ساتھ ان کا میڈیا ٹراٸل جاری رکھا۔ سب کا خیال تھا کہ وہ سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی میں بدل کر انتقام کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کے دوران انہوں نے جب منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوٸے نواز شریف کو دھمکی آمیز انداز میں مخاطب کرتے ہوٸے کہا کہ واپس آ کر جیل میں تمہارا اے سی اور پنکھا اترواٶں گا تو سننے والوں نے اس لہجے اور دھمکی کو پسند نہیں کیا تھا۔ رانا ثنا ٕاللہ پر پندرہ کلو ہیروٸن ڈلوانا اور انہیں مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالنے کی دھمکیاں دینا بھی ان کا نامناسب کام تھا۔ اپنے مخالفین کے نام بگاڑ بگاڑ کر جلسوں میں لینا اور انہیں تضحیک کا نشانہ بنانا بے شک انہیں لطف دیتا ہوگا مگر ان کے سیاسی مخالفین کے لٸے یہ بڑا تکلیف دہ تھا۔
وقت ایک چلتا پہیہ ہے۔ اوپر کی ساٸیڈ نیچے اور نیچے کی ساٸیڈ نے اوپر آنا ہی ہوتا ہے۔ وقت کا پہیہ گھوما تو تخت نشین مجرم اور مجرم تخت نشین بن گٸے۔ اقتدار سے محرومی عمران خان کی سیاست کااصل امتحان تھا۔ ان کے لٸے یہ صورتِ حال غیرمتوقع اور نٸی تھی۔ جن مشیروں پر عمران خان بھروسہ کرتے تھے وہ ان سے مخلص نہ تھے۔ جو مخلص تھے انہیں وہ اپنے اقتدار کے دنوں میں ہی خود سے دور کر چکے تھے۔ وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے والوں نے عمران خان کو غلط مشورہ دے کر قومی اسمبلی سے اپنے ایم این ایز کے استعفے دلوا دیٸے۔ فرق معمولی ووٹوں کا تھا۔ پی ڈی ایم کی حکومت انتہاٸی کمزور تھی۔ کوشش کر کے اقتدار دوبارہ حاصل کیا جا سکتا تھا۔انہوں نے استعفے دے کر حکومت کو مضبوط کر دیا۔ خان نے غیردانشمندانہ فیصلہ کر کے خود کو اناڑی ثابت کر دیا۔اس کے بعد انہی مشیروں کے مشورے پر انہوں نے جلد الیکشن لینے کی خاطر پنجاب اور کے پی کی صوباٸی اسمبلیوں کی اپنی حکومتیں ختم کر کے اپنا وزن خود ہی کم کر لیا۔ خان اناڑی تھا۔ سامنے منجھے ہوٸے کھلاڑی تھے۔ انہوں نے کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں بزورِ قوت چھین کر خان کو بالکل ہی بے دست و پا کر دیا۔ عمران خان کوشش کے باوجود الیکشن نہ لے پاٸے حتیٰ کہ چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال ایکسٹرا زور لگانے کے باوجود بھی صرف صوبہ پنجاب میں الیکشن نہ کروا سکے۔ اگر عمران خان قومی اسمبلی سے استعفے دینے اور اپنی صوباٸی حکومتیں ختم کرنے کی غلطیاں نہ کرتے تو آج فیصلہ سازی میں ان کی مرکزی حیثیت ہوتی۔ راجہ ریاض کی بجاٸے ان کی مشاورت سے نگران حکومتیں بنتیں۔ مگر وہ مخالفین کے بچھاٸے جال میں مسلسل پھنستے چلے گٸے۔ انہوں نے خود کو ریڈ لاٸن قرار دینے کی غلطی کر کے اپنی حکومتوں کے بعد پارٹی کی تباہی کی بنیاد بھی رکھ دی۔ لیڈر گرفتار ہوتے ہی آٸے ہیں۔ اس میں انہونی کیا ہے۔ مخالفین نے ریڈ لاٸن والی بات سے بھی پورا فاٸدہ اٹھایا اور پولیس کے ذریعے خان کی گرفتاری کا تاثر دے کر پی ٹی آٸی کے ورکرز کے ہاتھوں پچاس سے زاٸد پولیس والے زخمی کروا لٸے۔ پی ٹی آٸی ورکرز نے غلیلوں اور پٹرول بموں کا خوب استعمال کیا۔ عمران خان اور ورکرز فخر سے سینہ چوڑا کر رہے تھے کہ ہم نے حکومت کو شکست دے دی ہے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ تو محض ایکٹر تھے۔ انہوں نے پتلیوں کی طرح حکومت کے ہاتھوں میں پکڑی ڈوری کے اشاروں پر محض رقص کیا ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعے پی ٹی آٸی کو دنیا بھر میں ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر متعارف کروا دیا گیا۔ اور پھر عمران خان نے اپنی بے پناہ مقبولیت کے زعم میں 9 مٸی کر دیا۔ جس نے انہیں سیاسی طور پر تنہا کر دیا۔ اپنوں نے دھڑا دھڑ ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور انہیں ریڈ لاٸن قرار دینے والے ورکرز کان لپیٹ کر اپنے گھروں کو لوٹ گٸے۔
اس وقت عمران خان جیل میں ہیں۔ اب وہ کسی کی ریڈ لاٸن نہیں رہے۔ انہیں جیل میں 9×11 کی ایک کوٹھڑی میں رکھا گیا ہے۔ اٹک جیل ویسے بھی بہت سخت ہے۔ یہاں بی کلاس کی سہولت موجود نہیں۔ ان کی کوٹھڑی میں ہی اوپن واش روم ہے۔ ٹونٹی میں پانی گدلا آتا ہے۔ بجلی بار بار جاتی ہے۔ دن کو مکھیاں اور چیونٹیاں ستاتی ہیں۔ رات کو دیگر حشرات ان کی کوٹھڑی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہ یہاں تین سال کی قید کاٹ رہے ہیں۔ ان کی شریکِ حیات بشریٰ بی بی کی ان سے ملاقاتکروا دی گٸی ہے جس کے لٸے انہیں پہلے آدھا گھنٹہ اور پھر ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کروایا گیا تاہم وکلا ٕ کو عمران خان سے ملنے کی اجازت اس روز نہ مل سکی۔ عمران خان کی فوری ضمانت کی درخواست رد ہو چکی ہے۔ جبکہ نیب میں ان کے خلاف قاٸم توشہ خانہ کیس اور القادر ٹرسٹ کیس میں بھی ان کی ضمانت خاج ہو چکی ہے۔ اب اگر موجودہ کیس میں عمران خان کی ضمانت ہو بھی جاتی ہے تو دوسرے کسی کیس میں انہیں گرفتار کر لیا جاٸےگا۔ ان کے خلاف تو قریباً دو سو کیسز موجود ہیں جن میں انہوں نے ضمانتیں لے رکھی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اب عمران خان جلدی جیل سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ انہیں ایک ایک دن میں نو نو ضمانتیں مل جایا کرتی تھیں۔ لگ تو یہی رہا ہے کہ باری باری وہ ضمانتیں کینسل ہوتی رہیں گی اور عمران خان ایک کے بعد دوسرے کیس میں گرفتار کٸے جاتے رہیں گے۔ ایک وقت تھا کہ جب انہیں آٸندہ قاٸم ہونے والے مقدمات میں بھی پیشگی ضمانت مل جایا کرتی تھی۔ اب ہواٶں کا رخ تبدیل ہو چکا ہے۔ جیل میں ان کا قیام کافی طویل لگ رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ آٸندہ الیکشن کے دوران بھی وہ جیل سے باہر نہ آ سکیں۔
جیل میں عمران خان کو یکسوٸی اور تنہاٸی میسر ہے۔ انہیں اپنی سیاسی جدوجہد، اقتدار کے حصول اور پھر اس سے محرومی کے تمام واقعات پر غور کرنا چاہٸے۔ اپنی غلطیوں، مشیروں کے مشوروں اور مخالفین کی چالوں کو ذہن میں لا کر حالات کا تجزیہ کرنا چاہٸے۔ جیل کی سختیاں ان کے لٸے نٸی ہیں۔ انہوں نے شہزادوں جیسی زندگی بسر کی ہے۔ اب انہیں بہادری اور پامردی سے حالات کی سنگینی کو برداشت کرنا ہو گا۔ ان کے سیاسی مخالفین بھی مہینوں اوربرسوں جیلوں میں رہے ہیں۔ عمران خان کا یہ پہلا امتحان ہے۔ یقین وہ بہادر بھی ہیں اور ثابت قدم بھی۔ انہیں جھکانا یا توڑنا آسان نہیں ہے۔ اگر وہ پامردی سے یہ آزماٸش کا وقت گزار گٸے تو اقتدار میں ایک مرتبہ پھر ان کی واپسی ہونا ناممکن نہیں۔ یہ واپسی ایک ہیرو کی واپسی ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں