ام عمر
آج 15 اگست ہے ۔ سب کو بچوں کو اس سال بھی دادی اماں نے اپنے کمرے میں مغرب کی نماز کے بعد بلایا ۔
اس سال بھی دادی اماں نے سب بچوں سے پوچھا کہ سب سے پہلے تو باری باری سب بچوں مجھ کو یہ بتاؤ کہ ہم آخر جشن آزادی کیوں مناتے ہیں ؟
سب سے پہلے چھوٹے احمد میاں بولے کہ وہ نہ اس میں ہم اپنے ملک کا بڑا سا فلیگ اپنے گھر پر لگاتے ہیں اور پھر بابا کے ساتھ جاکر کپڑوں پر لگانے کے بیج لیتا ہوں اور دادی اس دفعہ تو میں نے بابا سے بڑے والے باجے کی ضد کی تھی لیکن بابا نے کہا کہ نہیں یہ چھوٹا والا لو ۔ احمد میاں سانس لینے کے رکے تو جلدی سے حاجرہ بولی میرے بابا تو بہت اچھے ہیں انہوں نے تو مجھ کو بڑا والا باجا لاکر دیا تھا اس کو بجانے میں بہت مزا آیا اس کی آوز بھی بہت زور کی تھی ۔
احمد نے کہا میری ٹرن تھی تم درمیان میں آکر بولے جا رہی ہو ۔دادی اماں میں یہ کہنا چاہا رہا تھا کہ آپ نے ہم کو لاسٹ ائیر بتایا تھا کہ بڑے بڑے باجوں کی آواز سے سب ڈسٹرب ہوتے ہیں اس لئے میں نے چھوٹا والا لیا تھا لیکن وہ بھی شام تک خراب ہوگیا اس لئے میں صیح سے انجوائے نہ کر سکا ۔
دادی اماں نے فاطمہ سے پوچھا کہ بیٹا آپ نے جشن آزادی کیوں اور کیسے منایا ۔
فاطمہ نے ایک لمبی سانس لی اور لاڈ سے بولی دادی میں نے آپ کی پچھلے سال کی بتائی ہوئی باتوں پر تھوڑا سا عمل کیا پوری طرح ان شاءاللہ میں عمل کرنے کی کوشش کرونگی ۔
اب عمر میاں کی باری تھی کیونکہ وہ بچوں میں بڑے تھے اور بڑے ہونے کا ہر وقت چھوٹوں پر رعب جماتے تھے ۔عمر میاں نے کہا دادی اماں ہمارے اسکول میں 14اگست کے حوالے سے بہت سارے مقابلے ہوئے تھے اس میں صرف بیت بازی کے علاؤہ میں نے سب میں حصہ لیا۔ تقریری مقابلہ میں میں دوئم رہا لیکن دادی اماں مضمون نگاری میں میں اول آیا ۔
دادی اماں بولیں بتاؤ تم نے اپنے مضمون میں کیا لکھا تھا جو سب کو پسند آیا اور ہمارا بیٹا اول آیا ۔
عمر بولے دادی اماں آپ نے جو اپنے بابا اور مما کے ہجرت کے واقعات ہم کو سنائے تھے وہ میں نے مضمون میں لکھے ۔
سب بچے بولے ہم تو بھول گئے کون سے واقعات ۔
دادی اماں بولیں بچوں میں آپ کو سناتی ہوں ۔
دادی اماں کے چہرے پر خوشی اور آنکھوں میں آنسو تھے ۔ وہ پر جوش آواز میں بولیں میرے بچوں یہ وطن بہت سی قربانیوں اور آزمائشوں سے حاصل ہوا ہے اس ملک کو بنانے میں میرے چچا ،ماموں اور بہت سارے شہیدوں کا خون شامل ہے ۔دادی اپنے والد مرحوم اور والدہ مرحومہ کا زکر کرتے ہوئے بولیں کہ پاکستان کی طرف سب کچھ اپنا گھر کاروبار چھوڑ کر ہجرت کرکے پاکستان آئے ۔ بیٹا ہجرت کے راستے میں لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کی قربانی پیش کی ۔ پاکستان آکر بھی ایسا نہیں تھا کہ اب ساری مشکلات دور ہوگیں ہو ہمارے بزرگوں نے دن رات محنت کر کے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ۔ سب سے پہلے جو لوگ ہجرت کر کے آئے تھے ان کےلئے گھروں کا اور روزگار کا انتظام کرنا آسان کام نہ تھا ۔
دادی اماں نے پانی پی کر بتانا شروع کیا کہ بچوں پاکستان بنے کے بعد بہت مشکلات پیش آئیں جن کے بارے میں آپ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے ۔
فاطمہ جھٹ سے بولی دادی اماں آپ ہر سال ہم کو 15 اگست جب ہم جشن آزادی منا لیتے ہیں جب بتا تی ہیں ۔
دادی اماں نے کہا وہ اس لئے کہ تم لوگوں کو یاد رہے کہ ہم کو آزادی کے دن کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا میں نے پچھلے سال کہا تھا کہ ڈھیر ساری جھنڈیوں کے بجائے آپ لوگ پودے لگائیں تو آپ نے میری بات مانی اس طرح کیسے سر سبز پودے ہمارے گھروں کو خوشنما اور خوبصورت بنادیا ہے ۔
دادی اماں نے آمنہ سے پوچھا بیٹا آپ کیوں خاموش ہو ۔ آپ کے اسکول میں کس طرح جشن آزادی منایا گیا ۔
آمنہ بولی دادی اماں آپ کو تو پتہ ہے کہ مجھ کو بیت بازی میں مزا آتا ہے اور یہ بیت بازی کا مقابلہ بھی پاکستان کی آزادی کے حوالے سے تھا ہماری کلاس کی ٹیم اس میں اول آئی ۔
دادی اماں نے کہا ماشاءاللہ ۔ اچھا اپنی بیت بازی کا سب سے اچھا شعر تو سناؤ جس پر سب سے زیادہ داد ملی ہو ۔
آمنہ نے سوچتے ہوئے کہا جی سناتی ہوں وہ شعر میری کلاس کی ایک بچی نے سنایا تھا آمنہ نے شاعرانہ انداز میں شعر سنایا
ملا نہیں ھے ھمکو ارض پاک تحفے میں
ھزاروں دیپ بجھے تو یہ ایک چراغ جلا
دادی نے جلدی سے کہا ما شاءاللہ بہت خوب صورت شعر ہے ۔
حمنہ بہت خاموشی سے غور سے سب کی باتیں سنتے ہوئی بولی ایک بات دادی اماں آپ نے پچھلے سال ہم کو بتائی تھی اس کو میں نے یاد بھی دکھا اور عمل بھی کیا ہے ۔
احمد بولا کونسی بات مجھ کو تو بس یہ یاد ہے کہ جھنڈیوں کو پیروں کو نیچے نہیں آنا چاہئیے ۔
حمنہ بولی میں اپنی بات پوری کرلوں پھر تم بولنا ۔ دادی اماں نے کہا تھا کہ ہم کو ہر سال شکرانے کے نفل پڑھنے چاہئے اور ملک کی حفاظت کی دعا کرنی چاہیے ۔
دادی اماں نے کہا شاباش
عمر میاں بولے ایک بات اور بتائی تھی دادی نے کہ رات کو شوروغل اور آتش بازی نہیں کرنی چاہیے ۔
فاطمہ بولی بھائی آپ ایک اہم بات بھول گئے کہ باجے نہیں خریدنے اور جو بجائے اس کو سمجھانا ہے میں نے تو احمد اور حاجرہ سے کہا تھا کہ باجوں سے شور ہوتا ہے لوگ پریشان ہوتے ہیں لیکن دادی ان لوگوں میری بات نہیں سنی ۔
آمنہ نے فورآ باجوں کے متعلق ایک شعر سنایا
مجھے اپنے ہی لوگوں کو بہر صورت ڈرانا ہے
مجھے آزادی گلشن پہ باجا تو بجاناہے
یہ شعر میری مما کے استاد محترم کاہے ۔
دادی نے کہا چلو بچوں عہد کرو کہ اپنے وطن کو خوب صاف ستھرا رکھو گے اور ہاں اپنی زبان اردو کو فروغ دو گے کیوں ٹھیک ہے نہ احمد بیٹا ۔ انگریزی آپ ضرور سیکھے لیکن جب اردو میں بات کریں تو اچھی اور شائستہ زبان استعمال کریں ۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین یارب العالمین