80

یوم آزادی اور ہمارا رویہ/تحریر/علی عبداللہ

علی عبداللہ

عمان کی جس کمپنی میں میرا پروجیکٹ تھا وہاں تقریباً 80ممالک کے ملازمین مختلف شعبوں میں تھے- میرے ڈیپارٹمنٹ میں عمان، پاکستان،ہندوستان،امریکہ، میکسیکو،سوڈان سمیت کچھ دیگر ممالک کے لوگ موجود تھے- عمان کے قومی دن پر ان کے جشن منانے کے انداز اور رویے پر پھر کبھی لکھوں گا، فی الحال میں آپ کو پاکستان اور ہندوستان کے لوگوں کا بتانا چاہ رہا ہوں-
تو بات کچھ یوں ہے کہ 14 اگست والے دن ہم پاکستانیوں میں کسی قسم کا جوش و خروش دیکھنے کو نہیں ملا- حالنکہ پاکستانی وہاں اچھی خاصی تعداد میں تھے، لیکن یوم آزادی پر بھی ان میں کسی قسم کا کوئی اجتماعی گٹھ جوڑ یا یوم آزادی کے حوالے سے کسی قسم کی گفتگو دیکھنے کو نہیں ملی- بہت افسوس بھی ہوا اور مایوسی بھی کہ پاکستانی ہر جگہ آپس میں اتفاق نہ سہی کم از کم یوم آزادی کے موقعہ پر تو یکجہتی اور اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بارے کچھ نہ کچھ ایکٹوٹی رکھیں- نجانے ایسا کیوں ہے؟ بحیثیت قوم ہم اکھٹے ہی نہیں ہو سکے آج تک، کیوں؟
پھر آیا 15 اگست، ہندوستان کا یوم آزادی۔۔۔۔تمام ہندوستانیوں نے مل کر 5 ،5 ریال جمع کیے اور ساتھ آفس میں آزادی کی جھنڈیاں لگائیں- جمع شدہ پیسوں سے انہوں نے پیزے،کیک اور کچھ عمانی مٹھائی منگوا کر پورے ڈیپارٹمنٹ کو باقاعدہ مدعو کیا،کیک کاٹا اور “لانگ لیو انڈیا” کا نعرہ بھی لگایا- دلوں میں ان کے فاصلے تھے مگر انہوں نے یوم آزادی پر مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کیا- بہت خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی۔۔۔۔۔۔۔۔
بات ابھی ختم نہیں ہوئی- اس دوران ہمارا ٹریننگ مینیجر جو کہ برطانوی تھا، وہ بھی وہاں موجود تھا، جب وہاں کچھ لوگوں نے “لانگ لیو انڈیا” کا نعرہ لگایا یا شاید کہا کہ ہم نے آج کے دن برطانیہ سے آزادی حاصل کی تو وہ مینیجر بولا، ہمارا شکریہ ادا کرو ہم نے تم لوگوں کو ملک واپس کیا،ورنہ فریڈم ڈے کیسے مناتے- اور اس نے اس پورے کھانے کے ٹیبل سے ایک لقمہ تک نہ چکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیشنلزم کا یہ مظاہرہ میرے ذہن میں آج تک نقش ہے اور ہر یوم آزادی پر یہ واقعہ بے ساختہ یاد آ جاتا ہے-

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں