عبد العلیم اعوان
اگست 1947کا مہینہ شروع ہوچکا تھا۔برصغیر میں مسلمانوں کی آزادی کی تحریک میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا تھا۔گلی گلی،شہرشہر،قریہ قریہ سب کے سروں پہ آزاد ریاست حاصل کرنے کی دھن سوار تھی۔جس کےلیئے مسلمانوں کی تحریک آزادی میں بچوں،بوڑھوں اور نوجوانوں کے علاوہ مسلم خواتین بھی سر دھڑ کی بازی لگا رہی تھیں۔تاکہ آزاد ریاست حاصل کرکے ہمیشہ ہمیشہ کےلیئے ہندوؤں کے ظلم وستم سے آزاد ہوکر خدا کے آگے سربسجود ہوسکے۔اسلام کا علحیدہ گلشن ہو جس میں ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں اور آبروئیں محفوظ ہو اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی عزتیں بھی تارتار ہونے سے بچ جائیں۔خدا کی زمیں پر خدا کا قانون لاگو ہو نہ کہ انگریز پاپیوں کا قانون۔اس سوچ ونظریے کے ساتھ مسلمان آگے بڑھ رہے تھے۔اور خاص کر مسلمانوں کے بچے تو نئے جوش وخروش کے ساتھ صبح سویرے ہی نعرہ تکبیر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں کی گونج میں گھروں سے نکل جاتے اور اپنی خوبصورت وطوطلی آوازوں سے فضا معطر کردیتے مسلمانوں کے آزادی جلسوں اور جلوسوں میں روز بروز تیزرفتاری آتی تو اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اور مسلم مسلم بھائی بھائی کے فلک بوس نعروں میں بھی اضافہ ہوتا رہتا یوں مسلمان چغد اور خردبردقسم کے لوگوں کو تکبیر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے چکراتے رہتے ادھر ہندو بھی مسلم مخالف نعرے لگاتے میدان میں مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار نظر آتے دیکھائی دیتے اور ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے ان کی زبانوں پہ ہوتے لیکن دوسری طرف آزادی کے متوالے ہندو نعروں کے جواب میں کلمہ توحید بلند کرتے اور ساتھ
لے کر رہیں گیں پاکستان
دینا پڑے گا پاکستان
بٹ کے رہے گا ہندوستان
بن کے رہے گا پاکستان
کی صدائیں بلند کرتے نظر آتے یا جب ہندؤ مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہاء کرتے تو یہ نعرے بھی عروج پر ہوتے کہ
آپنا سر کٹائیں گے پاکستان بنائیں گے
سینہ پر گولی گھائیں گے
پاکستان بنائیں گے
خوں کی ندیاں بہائیں گے پاکستان بچائیں گے
پاکستان زندہ باد نعرہ تکبیر اللہ اکبر
مسلمانوں کے خوں میں یہ نعرے ایک نیا ولولہ اور جذبہ پیدا کرتے اور مسلمان انہی نعروں کی بدولت بھولے اور سوئی قوم کو بیدار کرتے نظر آتے اور ان میں موجود جذبہ شہادت کو جگاتے،اسی جذبہ شہادت کو دیکھ کر شاعر نے سوئی قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کی کہ
اٹھ شیر مجاہد ہوش میں آتعمیر خلافت پیدا کر
کیوں فرقے فرقے ہوتا ہے اب ایک جماعت پیدا کر
کر تو بھی ترقی دنیا میں اسباب تجارت پیدا کر
قارون کی دولت ٹھکرا دے عثمان کی دولت پیدا کر
اسلام کا دم بھرتا ہےکفر سے پھر کیوں ڈرتا ہے
یاتو اسلام کا نام نہ لیں یا شوق شہادت پیدا کر
مسلمانوں کے لگائے جانے والے یہ نعرے صرف حرف نہیں تھے بلکہ یہ نعرے مسلمانوں کے اس دور میں منشور تھے جو ہمارے بزرگوں نے بڑی سوچ وپچار کے ساتھ مسلمانوں کو دیئے تھے۔مسلمانوں کے انھیں نعروں نے خیلاء قسم کے ہندوؤں اور حد سے زیادہ اپنے پر ناز اور گھمٹ کرنے والے انگریزوں کو چکرادیا تھا۔مسلمان اپنے جامے میں رہ کر آزادی کی تحریکوں کو مضبوط سے مضبوط تر بنا رہے تھے اور کفر کے خلاف گل بانگ بلند کررہے تھے۔ادھر انگریز اور ان کے ٹٹو یعنی ہندو اپنی باتوں کے گل چھڑے اڑا رہے تھے بالکل اسی طرح”جس طرح پچھلے چند ماہ سے وطن عزیز کے اقتدار کے ہوس حکمران باتوں کے گل چھڑے اڑاتے نظر آرئے ہیں۔انکے اللے تللے سن کر مجھے قائد اعظم صاحب رحمہ اللہ کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں جو انہوں نے اقتدار کے ہوس مسلم راہنماؤں سے کہے تھے کہ ‘جب میں دایاں ہاتھ جیب میں ڈالتا ہو تو کھوٹہ سکا ہاتھ لگتا ہے اور اگر بایاں ہاتھ جیب میں ڈالتا ہو تو بھی کھوٹہ سکا ہاتھ لگتا ہے”
اور ان خیالوں میں گم تھے کہ یہ مٹھی بھر بیچارے مسلمان ہمارا کیا بگاڑ پائیں گے انھیں خیالی پلاؤ پکانے اور سوکھے خواب دیکھنے دوں اور جھوٹے مزے لینے دوں پر انھیں کیا پتہ تھا کہ مسلمان ان کے نام لیوا ہیں جنہوں نے بدر کے معرکے”اسلام اور کفر کے درمیان پہلا معرکہ جو مقام بدر پر پیش آیا”میں قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود دشمن کو دن میں تارے دیکھا دیئے تھے۔ان دولت کے پجاریوں کو کیا معلوم تھا کہ یہ مسلمان ان کے نام لیوا ہیں جنہوں نے دشت تو دشت بحر ظلمات کو بھی نہ چھوڑا بقول شاعر۔
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں گھوڑے ڈورا دیئے ہم نے
مسلمان بغیر کسی دھکڑ پکڑ کے آزادی کی راہ کی طرف گامزن تھے اور وطن کی خاطر دھوپ چھاؤں کی پرواہ کیئے بغیر وطن پر جی جان فدا کرنے پر تل گئے تھے۔تاکہ اپنے الگ گلستان میں رہ کر شاداں و فرحاں زندگی گزاریں،اور گل زار کا ہرہر فرد شادکام یعنی خوشحال ہو،مسلمان اور دین اسلام خوشحال ہو۔مسلمانوں کو تمازت کی کوئی پرواہ نہ تھی پر دھن سوار تھی تو صرف آزادی کی اور آپنا الگ گلشن سجانے کی جہاں اسلام بھی محفوظ ہو اور شریعت بھی محفوظ ہو۔اس وقت مسلمان چاہے چھوٹا تھا یا بڑا اسکی چشم براہ الگ وطن پر تھیں۔باقی جان ومال کی کوئی پرواہ نہ تھی بالاخر مسلمانوں کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی اور وہ گھڑی آن پہنچی جس کے انتظار کے ہیچھے کئی برسوں کی محنتیں وقربانیاں شامل حال تھیں۔اور وہ مبارک گھڑی ماہ مقدس کی ستائسویں شب کی تھی جب قائد اعظم صاحب رحمہ اللہ کے حکم پر وطن عزیز پاکستان کے مغربی حصے پر مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب اور مشرقی حصے پر مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب پرچم کشائی کا فریضہ سرانجام دیں رہے تھے کیونکہ اس سب کے پیچھے انہی حضرات کی قربانیاں اور دعائیں شامل حال تھیں۔اس روز پاکستان کا ہر مسلمان چہرے پر مسکراہٹ سجائے اور جامے میں بھولے نہ سماتا نظر آرہا تھا۔اور دوسری طرف انگریز اور اسکے ہندو پاپیوں کے تلے کے دانت تلے اور اوپر کے اوپر رہ گئے تھے مسلمان آزاد ریاست میں کھڑے کفرستان والوں کو بتارہے تھے کہ
ہم ایک خدا کے قائل ہیں پندار کا ہر بت توڑے گے
ہم حق کے نشاں ہی
یہ سبزہلالی پرچم ہے ہرحال میں یہ لہرائے گا
یہ نغمہ آزادی کا دنیا کو سنا کر دم لیں گے