بشارت حمید

ایک شہر سے دوسرے شہر روزگار کے سلسلے میں فیملی شفٹ کرنی پڑے تو ہمیں کتنا بھاری لگتا ہے حالانکہ اس شفٹنگ میں تمام تر سہولیات موجود ہوتی ہیں۔ جس شہر شفٹ ہونا ہوتا ہے وہاں کرایہ پر یا اپنا مکان حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔۔ نہ اس شفٹنگ میں جان کا خطرہ کہ کوئی رستے میں حملہ کر کے مار نہ دے۔۔ نہ مال و اسباب چھن جانے کا ڈر۔۔
لیکن ان سب کے باوجود ہمیں کتنی مشکل ہوتی ہے نئی جگہ جا کر رہنے اور سیٹ ہونے میں۔۔
ذرا تصور کیجئے۔۔ 1947 میں حبس بھرے اگست میں ہمارے آبا و اجداد نے اپنی زمینیں اپنا گھر اپنا کاروبار چھوڑ کر خالی ہاتھ اس ملک خداداد کی طرف شفٹنگ کی تھی جہاں یہ بھی علم نہیں تھا کہ جانا کہاں ہے اور خیریت سے وہاں پہنچ بھی سکیں گے یا کہیں تاریک راہوں میں مار دیئے جائیں گے۔ نہ سواری نہ سہولت نہ جان کی امان۔۔ بیلوں اور چھکڑوں پر جوان، بوڑھے، عورتیں اور بچے ۔۔ کوئی سوار کوئی پیدل۔۔ اللہ کے آسرے پر چل پڑے۔۔
ہزاروں ایسے تھے جو یہاں تک پہنچ ہی نہ پائے اور راستے میں ہی بلوائیوں کا شکار ہو گئے۔۔ سیکنڑوں مسلمان عورتیں زبردستی گھروں میں رکھ لی گئیں۔۔ مسافروں سے بھری ہوئی ٹرینیں سلاٹر ہاوس بنا دی گئیں۔۔ جو لٹے پٹے قافلے پاکستان پہنچ سکے انہیں الگ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔۔
آج ہم پر آسائش زندگی گزارتے ہوئے اس ملک کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں کی جائیدادیں اور کاروبار کے مالک بنے ہوئے اس ملک کو جواب میں کیا دے رہے ہیں۔ اگر یہ ملک معرض وجود میں نہ آتا تو ہم کمی بن کر غلامی کے طوق پہنے ہوئے زندگی گزار رہے ہوتے اور ان کوٹھیوں، پلازوں اور مربعوں کے مالک نہ ہوتے۔
یہ ملک اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ ملک ہماری پہچان ہے۔ ہمیں یہاں مایوسی پھیلانے والے غیر ملکی وظیفوں پر پلنے والے راتب خوروں سے ہوشیار رہنا ہو گا۔
ہم سب اپنا جائزہ لیں کہ ہم اس ملک کے لیے کیا کر سکتے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ہم اپنے حقوق کا رونا رونے سے پہلے اپنے فرائض پہچان کر انہیں پورا کریں۔ جو جو چھوٹا بڑا مثبت کردار ہم ادا کرسکتے وہ ضرور کریں۔
ہم مسلمان ہیں اور یہ ملک اسلام کے نام پر ہی حاصل کیا گیا تھا اسی نظریے پر لوگوں نے اپنی جانیں عزتیں اور مال و جائیداد لٹا دیئے تھے لیکن ہم آج کہاں کھڑے ہیں۔۔ اسلام کے نام لیوا تو ہیں لیکن عملی طور پر اس نظریے اور منزل سے بہت دور ہیں۔
اللہ کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا کہ ہم اس ملک کو اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے ہم نے اس عہد سے روگردانی کی اور نتیجہ ہمارے اندر نفاق جھوٹ اور ذلت و رسوائی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
اب بھی موقع ہے کہ ہم اپنی ذات سے شروع کریں اور اپنے معاملات کو دین کی تعلیمات کے تابع کرتے ہوئے اس زوال پذیر معاشرے کو مثبت راہ پر ڈالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اللہ ہماری اس ارض وطن کو تاابد سلامت اور شادوآباد رکھے۔
پاکستان زندہ باد