112

یہ طوفان جانے کہاں تک لے جائے۔۔۔۔! تحریر/محمد احسان/اسلام آباد

تحریر/محمد احسان/اسلام آباد

ملک عزیز کے تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی منشیات کا استعمال ایک بڑے خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے ، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات ہیروئن، چرس اور سیگریٹ کے نشے میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں جبکہ اس کے وجہ سے تعلیمی کارکردگی تو درکنار،معاشرتی برائیوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے، مالدار طبقے کی اولاد اس مرض میں زیادہ مبتلا ہیں، جس کی مثال گزشتہ دنوں ایک ویڈیو میں دیکھی جاسکتی ہے کہ چند لڑکیاں ایک لڑکی کو بری طرح پیٹ رہی ہیں جبکہ اس کا قصور ان کو منشیات سے روکنا اور اس کے بارے میں انکے والدین کو مطلع کرنا تھا، اس طرح کی اور بے شمار مثالیں ہیں کہ جو منظر عام پر نہیں آ تی، حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں منشیات بہ آسانی مل جاتی ہیں جسکی وجہ سے نشہ کے استعمال میں ہوش ربا اضافہ ہوتا جا رہا ہے،جو صرف مردوں تک ہی محدود نہیں بلکہ خواتین بھی اس میں مبتلا ہورہی ہیں۔

گزشتہ سال پنجاب کے وزیر اعلی نے تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال پرسخت قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا تھاجو وفا نہ ہو سکا اور ملکی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا، میرے خیال میں یہ قانونی نہیں بلکہ معاشرتی مسئلہ ہے، معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی، بے راہ روی اور بے حیائی کے فروغ سے نوجوانوں منشیات کے استعمال کی طرف جا رہے ہیں
قوم کا مستقبل داؤ پر لگا ہے، ہمارا نوجوان طبقہ نشے کا شکار ہو کر اپنی صلاحیتیں کھو رہا ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے پریشان کن ہوگا، بہتر ہے کہ ہم بروقت اس بیماری کا تدارک کریں، خاص کر تعلیمی اداروں کو اس سے محفوظ رکھنے کا بھرپور انتظام کریں، کیونکہ نوجوان نسل ہمارا قومی اثاثہ ہے، اور اگر یہ اثاثہ ضائع ہوتا گیا، اپنی صلاحیتیں کھوتا گیا تو اس قوم کے مستقبل کا تو خدا حافظ۔۔۔۔۔۔۔۔!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں