114

تعجب انگیز منظر!وہم و گمان میں بھی نہ تھا /تحریر/اعجاز خان میو

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا دور تھا ۔ حضرت عقبہ بن نافع فہری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ نے افریقہ کا عامل مقرر کیا ۔حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے افریقہ کے اکثر حصوں کو فتح کر لیا۔اس ملک کے اصل باشندے قوم بر برکے بہت سے قبائل نے اسلام قبول کرلیا اور وہ بھی حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ افریقہ کی فتح میں شریک تھے۔ لیکن مسلمانوں کے لئے کوئی ایسی چھائونی نہ تھی جہاں مستقل قیام کیا جاسکتا۔ جس کی وجہ سے جب امیر افریقہ وہاں سے فارغ ہو کر واپس مصر آتے تو نو مسلم بر بر بھی مخالفوں کے ساتھ کھڑے ہو کر سب عہد و پیمان توڑ ڈالتے اور جو مسلمان وہاں مو جود ہوتے ان کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے ۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارادہ فرمایا کہ مناسب جگہ پر چھائونی بنائی جائے جہاں ہر وقت عساکر اسلامیہ موجود رہیں اور اس طرح غربی افریقہ کو ایک مستقل صوبہ قرار دیا جائے ۔ اس مقصد کے لئے جس جگہ کو پسند فرمایا گیا وہاں اس قدر دلدل اور گنجان درختوں جوکا جنگل تھا کہ آدمی یا بڑے جانور تو کجا سانپوں کے لئے بھی اس میں سے نکلنا مشکل تھا ۔ یہ جنگل درندوں ، ہر قسم کے موذی اور زہریلے جانوروں کا مسکن تھا ۔ ایسی سر زمین میں میں آدمی کی بودوباش تو کیا گزرنا بھی خطرناک تھا ۔ مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا ہر ایک ارادہ باذن اللہ ہو تا تھا ۔ ان کے فعل میں مقبولیت کے آثار نمایاں ہو تے تھے ۔ وہ جو کچھ کرتے تھے اللہ کے بھروسہ پر کرتے تھے ۔ مسلمانوں نے اس جگہ کو قیام گاہ بنانے میں جو خطرات تھے بیان کئے تو حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان مصلحتوں کا اظہار فرمایا جو اس جگہ کو منتخب کرنے میں پیش نظر تھیں ۔مسلمانوں کے نزدیک آپ کے دلائل درست ثابت ہوئے تو انہوں نے فیصلہ کی توثیق کردی ۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں غربی افریقہ کا مشہورشہر ’’ قیروان ‘‘ جو زمانہ دراز تک دارالسلطنت اور گورنر افریقہ کے قیام گاہ ہونے کی وجہ سے اسلامی عظمت و اقتدار اور شان و شوکت کی زندہ یادگار تھا ۔ زمانہ دراز تک غربی افریقہ میں اس سے بڑا شہر کوئی نہ تھا ۔قیروان کی بنیاد 50 ہجری میں صحابہ ؓ کے ہاتھوں رکھی گئی ۔ اسی لئے یہ شہر مذہبی حیثیت سے مقدس سمجھا جا تا تھا ۔ ہزاروں جلیل القدر علماء اس کی خاک سے ظاہر ہوئے اور وہیں آغوش لحد میں تا قیامت آرام سے گوشہ نشین ہو گئے ۔ جیسا کہ یہ شہر اپنے مقدس بانیوں اور اسلام کی عظمت کے حوالے سے جانا جاتاہے ایسا ہی اس کی بنیاد اور آبادی کا واقعہ بھی صفحات عالم پر یادگا رہنے والا اور اسلام کی صداقت اور صحابہ ؓ کے اوصاف اور ذاتی محاسن و مقبولیت عالم کا سکہ بٹھوانے والا تھا ۔ جب ایک ہی وقت میں ہزاروں منکرین اسلام نے سچے دل سے دین اسلام قبول کرلیا ۔ حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر میں اٹھارہ صحابہ رسول ﷺموجود تھے ۔ آپ ؓ نے سب کو جمع فرما یا اور اس میدان میں لے گئے۔ حضرت عقبہ بن نافع فہری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہؓ اور ہزاروں افراد کی موجودگی میں حشرات و سباع کو خطاب کرکے فرمایا : ’’ ایتھا الحشرات والسباع نحن اصحاب رسول اللہ ﷺ فا ر حلو افانا ناز لون فمن وجدناہ بعد قتلناہ۔‘‘ ترجمہ : ’’ اے درندو اور موذی جانورو ! ہم رسول اللہ ﷺ کے اصحاب اس جگہ آباد ہونا اور قیام کرنا چاہتے ہیں ۔تم یہاں سے چلے جائو اور قیام کرنا چھوڑ دو۔اس بعد ہم جس کو دیکھیں گے قتل کر دیں گے۔‘‘ اس آواز میں معلوم نہیں کیا تاثیر تھی کہ سب حشرات اور درندوں میں ہلچل مچ گئی ۔ وہ اسی وقت جانے کے لئے تیار ہو گئے ۔ جانور گروہ در گروہ نکلنا شروع ہو گئے ۔جنگل کا ہر ایک جانور اپنے بچوں کو اپنے اپنے انداز میں اٹھائے ہو ئے اور سانپ اپنے سپو لیوں کو کمر سے چمٹائے ہوئے نکلے جاتے تھے ۔ یہ ایک تعجب انگیز منظر تھا جو اس سے قبل کہیں دیکھا گیا تھا نہ کسی کے وہم گمان میں تھا ۔ یہ یقینی امر ہے کہ اس حالت میں جب جنگل کے تمام درندے اور موذی جانور ہر طرف بکثرت پھیلے ہوئے ہوں ،کوئی بھی شخص قریب کھڑا نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ ہزراوں لو گ تماشائی بنے کھڑے ہوں مگر سب جانتے تھے کہ اس وقت یہ کسی نہایت جابر اور قاہر حکم کے تابع ہو ئے جاتے ہیں کسی دوسرے کو ان سے کیا اندیشہ ہو سکتا ہے ۔ ان کو اپنی جان پر بھار ی پڑ رہی تھی ۔ اس لئے بے تکلف ہزاروں مخلوق تماشا دیکھ رہی ہے ۔ قوم بر بر جو اس ملک کے باشندے اور اس جنگل کی حالت اور خطرات سے بخوبی واقف تھے ۔ ان حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ۔ ان کے لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اسلام کی حقانیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کربھی باطل پر قائم رہتے ۔ اسی وقت ہزار ہا بر بری صدق دل سے ایما ن لے آئے اور مسلمان ہو گئے ۔ ٭٭٭٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں