93

کچھ بھی پیغام محمد ﷺ کا تمہیں پاس نہیں/تحریر/عبد الغفار بلوچ

وہ اداس نظر آرہے تھے اور ان کے دل میں تڑپ تھی، پھر وہ اپنے ساتھی سے کہنے لگے کہ مجھے کچھ کہنا ہے کیا میں سٹیج پر جاؤں؟!
جس پر ساتھی نے اثبات میں سر ہلایا اور ان کے چہرے کی اداسی رخصت ہونے لگی کہ اب ان کے لیے میدان کھلا تھا!
استاد کی کرسی کو سائیڈ پر رکھ کر ساتھ والی کرسی پر وہ بیٹھ گئے، شاید استاد کی کرسی پر بیٹھنا انہوں نے خلاف ادب جانا ہوگا۔ اس کے بعد انہوں نے سلام کیا۔ مگر جب سلام کا جواب تسلی بخش نہ ملا تو دوبارہ سلام کیا۔ اس سے ذرا ہال میں موجود لوگ متوجہ ہوئے۔
اب یہاں پر وہ اپنے گفتگو کو اپنے بنیادی مقصد کی طرف لے جانے لگے!
کہتے ہیں میں آپ سب لوگوں سے کچھ سوالات کرونگا مجھے امید ہے کہ مجھے مثبت جواب ملے گا اور جب اس نے جب پہلا سوال پوچھا تو لوگوں کو ذرا عجیب لگا کہ یہ کیا بات ہوئی؟! اسی طرح انہوں نے دوسرا سوال پوچھا وہ بھی پہلے سے جڑا ہوا، پہلے کہا کون لوگ انگریزی بول سکتے ہیں؟! تو بیشتر لوگوں نے اثبات میں اشارہ کیا اور پھر کہتے ہیں کون لوگ انگریزی لکھ سکتے ہیں؟! تو بھی سب لوگ کہنے لگے کہ ہم یہ بھی کرسکتے ہیں۔
مگر اب ایک اور سخت مرحلہ آیا جب انہوں نے اچانک سوالوں کا رخ بدل دیا اور پوچھنے لگے کون لوگ عربی زبان سے واقف ہیں؟! کون لوگ قرآن پاک کا ترجمہ جانتے ہیں؟! چلیں اگر آپ لوگ ان چیزوں سے واقفیت نہیں تو خیر ہے مگر نماز کا ترجمہ تو سب لوگ جانتے ہونگے نا؟! اس پر لوگوں جواب بالکل مایوس کن تھا پچاس کے قریب افراد میں سے صرف ایک آدمی نماز کے ترجمے سے واقف نکلا۔
پھر انہوں نے ایک اور سوال پوچھا کہ آپ میں سے کس کس نے سیرت النبی ﷺ پر کوئی بھی کتاب پڑھ رکھی ہے؟! مگر اس پر بھی لوگوں کا جواب پہلے سے زیادہ مایوس کن تھا اور وہی ایک ہی آدمی نے ہاتھ کھڑا کر کے گوشہ مصطفی ﷺ سے متعلق کچھ واقف ہونے کا اظہار کیا۔
اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ کس کی بات ہورہی ہے؟! اور شاید آپ یہ بھی سوچ رہے ہونگے یہ بالکل معصوم بچے ہونگے یا پھر کسی غیر اسلامی مذہب کے لوگ ہونگے جن سے یہ کچھ پوچھا گیا۔ مگر ایسا بالکل نہیں۔
مکرمی! یہاں بات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک تعلیم ادارے کی ہورہی ہے اور یہ سب کچھ تب ہوا جب ایک یونیورسٹی کے کسی شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے افراد سے یہ سوال کئے گئے جن کی عمریں بیس سال سے زیادہ تھیں اور آپ یہ جان کر بھی انگشت بدنداں ہو نگے کہ یہ افراد ایم فل کلاس کے طالب علم تھے جو اپنے دین اور مذہب سے بالکل ناواقف تھے اور صرف یہی نہیں بلکہ اس سرگرمی کو راقم نے مختلف جگہوں پر مختلف شہروں کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں جن کو یونیورسٹی کہاجاتا ہے میں کیا ہے مگر بد قسمتی سے نتیجہ ایک ہی نکلا کہ یونیورسٹی میں پڑھنے والا طالب علم اپنے ہی مذہب یعنی دین اسلام سے یکسر غافل نکلا۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج کا مسلمان نوجوان کہاں کو چلا ہے؟!
ایک مسلمان نوجوان کو دین سے دور کر دینا اور اسے بے راہ روی کی طرف گامزن کرنا طاغوت کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ کیونکہ قوموں کا مستقبل نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور جب نوجوان اپنے مقصد وجود سے غافل ہو جائے تو وہ قوم گمنام ہوجاتی ہے اور دنیا میں اس کے وجود کو بے معنی سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے پاکستان کے اندر نوجوان نسل کی ذہنی اور فکری آبیاری کے لیے ان کو قرآن وسنت اور فکر اقبال سے روشناس کرانا ناگزیر ہے۔ اس کام کے لیے اپنے تعلیمی اداروں کے اندر ہی وہ نوجوان تیار کرنے ہونگے جو جدید تعلیمی تقاضوں کے علاوہ آج کے نوجوان نسل کے نفسیات سے بھی واقف ہوں!
اس کام کے لیے اسلام کی طرف بلانے والے نوجوان کو اپنے وقت کا درست انداز میں استعمال کرنا سب سے اہم ہے کیونکہ آج دنیاکو ایسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے جو تمام تر ذاتی مفادات سے ہٹ کر فقط فریضہ اقامت دین کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیں۔ جو فکر اقبال کو دوبارہ زندہ کریں جس طرح اقبال رحمہ اللہ نے خود بھی فرمایا تھا کہ!
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
مگر یہ سب سے بڑی بد قسمتی ہے کہ پاکستان میں بسنے والا نوجوان احساس ِ زیاں سے عاری ہوگیا ہے، مادہ پرستی اور طاغوتی حربوں نے نوجوانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا جس کی سب سے بڑی وجہ طاغوت کا ایجاد کردہ نظام تعلیم ہے جس کا بنیادی مقصد منکر کو عام کرنا ہے جس کے نتیجے میں معروف کو ناپید کیا جاسکے۔
مگر ایک بات تو طے ہے کہ فتح ہمیشہ معروف کی ہوتی ہے یعنی اگر تمام دنیا ملکر بھی حق کو جھٹلانے پر اتر آئے تو ناکام حق نہیں ہوتا بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو حق کو جھٹلا کر باطل کی گود میں جا بیٹھتے ہیں!
اس لیے نوجوان ِاسلام کو غور سے سو چھنا ہوگا کہ ہمارا مقصد وجود کیا ہے؟! جس کے لیے قلب میں سوز اور روح میں احساس ہوتو منزل دور نہیں.
اور قبال رحمہ اللہ کا جواب شکوہ سے یہ شعر اس درد کی عکاسی کرتا ہے.
قلب میں سوز نہیں رُوح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد ﷺ کا تمہیں پاس نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں