غم، خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں جبکہ شَرْم و حیا ایک ایسا وصف ہے جو صرف انسان میں پایا جاتا ہے۔ یہ صفت جانور اور انسان کے مابین وجہ امتیاز اور ان دونوں میں فرق کی بنیادی علامت ہے۔ اگر لب و لہجے ، عادات و اطوار اور قول و فعل سے شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی تمام خوبیاں پسِ پشت چلی جاتی ہیں اور دیگر تمام اچھے اوصاف کی موجودگی کے باوجود اپنی وَقعت و قدر ملیا میٹ کر دیتی ہیں۔ جب تک انسان شرم وحیا کے مضبوط قلعے میں محصور رہتا ہے ذلت و رسوائی سے مامون رہتا ہے اور جب وہ اِس قلعے کے حصار سے باہر نکل جاتا ہے تو پھر گھٹیا و رذیل ترین کام بھی بڑی ڈھٹائی اور بےباکی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔
جیسے ہر نیا دن ، نئی صبح پاکیزہ اور مقدس ہوتی ہے۔ اسی طرح تقریباً ہر انسان فطرتاً شرمیلا اور باحیا پیدا ہوتا ہے۔ پھر اسے کچھ ناعاقبت اندیش لوگ اپنے گندے کردار اور برے افعال سے پلید کر دیتے ہیں۔
لہجے میں حلاوت و شیرینی ، مہربانی، نہاں اور عیاں دونوں حالتوں میں اپنے خالقِ حقیقی کو نظر میں رکھنا، برائی سے اجتناب، خندہ پیشانی، جود وسخا، لوگوں کے درمیان کامیابی اور نیک نامی، یہ تمام صفات حیاء سے جنم لیتی ہیں اور یہ ایسے بیش بہا قیمتی فوائد ہیں جنہیں صرف ایک عقلمند اور باشعور انسان اپنی شرم و حیا سے حاصل کرتا ہے۔
حیا کے لغوی معنی وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔ یہ بے شرمی، فحاشی اور بے حیائی کی ضد ہے۔ ”حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے غلط کام کرنے سے نفس میں تنگی و بےچینی محسوس ہوتی ہے۔ علامہ ابن حجرؒ کے نزدیک ”حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر اُبھارتا ہے۔
احسن الخالقین اللہ ربّ العالمین نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر فطری خوبیوں سے مالا مال کیا ہے انہی خوبیوں میں سے ایک خوبی شرم وحیا ہے۔ شرعی نقطۂ نظر سے شرم وحیا اس صفت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان تمام قبیح اور ناگوار افعال سے گریز و پرہیز کرتا ہے۔ دین اسلام نے حیاء کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے تاکہ مومن باحیاء بن کر معاشرے میں امن وسکون پھیلانے کا ذریعہ بنے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ حیاء سراسر بھلائی ہے۔ گو انسان جس قدر باحیاء بنے گا اتنی ہی بھلائی اس میں بڑھتی جائے گی۔ حیاء ان صفات میں سے ہے جن کی وجہ سے پیارے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا : الحیاء من الایمان والایمان فی الجنة والبذآء من الجفآءٰ فی النار۔
(مشکوة۔431)
ترجمہ : “حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کا سبب ہے اور بے حیائی جفاء (زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔” حیاء کی وجہ سے انسان کے قول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوتا ہے لہٰذا باحیاء انسان مخلوق کی نظر میں بھی پرکشش و باعثِ رشک بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مقبول ہوتا ہے۔ لمحۂ غور وفکر یہ ہے کہ جب باحیاء انسان کی رفتار و گفتار اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو اتنی عزیز ہے تو اس کا کردار کتنا مقبول اور محبوب ہونا چاہیے؟
لہٰذا جو شخص حیاء جیسی دولت سے محروم ہو جاتا ہے وہ حقیقت میں بے آبرو ہو کر بدنصیب بن جاتا ہے ایسے انسان سے بھلائی کی امید رکھنا بھی فضول ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : اذا لم تستحیی فاصنع ما شئت۔ (مشکوٰة ۔431) ترجمہ : “جب شرم وحیا ء نہ رہے تو پھر جو مرضی کر۔”
اس سے معلوم ہوا کہ بے حیاء انسان کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند نہیں ہوتا اور اس کی زندگی شترِ بے مہار کی مانند ہوتی ہے۔ اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا بدن سے ہے۔ فرمایا نبی کریمﷺ نے :”بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔”
(مستدرک للحاکم،ج 1،ص176، حدیث:66)
اس میں قطعاً کوئی شک و شبہ نہیں کہ جیسے جیسے ہم اپنے اسلامی اقدار اور روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں شرم و حیا کی روشن کرنیں فحاشی و عریانیت کی اندھی اور تاریک تہذیب کی وجہ سے ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ اس منحوس لبرل تہذیب کے ناسور نے مسلم معاشرے میں بھی اپنے گندے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔
صد حیف! وہ شرم و حیا جسے اسلام مَرد و زَن کی زیب وزینت قرار دیتا ہے آج اس زیب وزینت کو کَلَنک کا ٹیکا بتایا جا رہا ہے۔ مَحْرم و نامَحرم کا تصوّر اور شعور دے کر دینِ اسلام نے عورت و مرد کے اِختلاط پر جو بند باندھا تھا آج اس میں سو چھید کر دیے گئے ہیں۔ دشمنان اسلام بدستور مسلمانوں کی شرم و حیا پر کاری وار کرتے نظر آتے ہیں۔ فحش اشتہارات کی بھرمار ، بےہودہ ڈراموں فلموں اور مارننگ شوز، وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کی براق چادر کو داغدار کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ فحاشی و بےحیائی ایسی ہولناک تباہی لاتے ہیں کہ ان کے بد اثرات نسلوں میں منتقل ہو جاتے ہیں یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ ناسور پھیل جائے تو نسلیں تک برباد ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو با حیا اور باعفت اطوار اپنانے کی تاکید و تلقین کرتا ہے اور حیاء کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔
حیاء ہی وہ واحد صفت ہے کہ جس کی وجہ سے انسان پاکیزگی اور پاکدامنی کی زندگی گزارتا ہے لہٰذا تمام مسلمان مرد وعورت پر لازم ہے کہ وہ حیاء کی صفت کو اپنانے کی مکمل کوشش کریں تاکہ پاکیزگی اور پاکدامنی کے ساتھ زندگی گزاریں۔
یوم تجدیدِ محبت (ویلنٹائن ڈے) منانے کے نام پر کھلم کھلا بے راہ روی و فحاشی کی ترغیب دی جا رہی ہے اور اسلامی معاشرے میں ان غیر مسلموں کے تہواروں کو جان بوجھ کر ہوا دی جارہی ہے تاکہ مسلمان اپنے مبارک اور پاک تہوار چھوڑ کر غیر اسلامی تہوار منا کر اپنا اسلامی تشخص کھو دیں۔ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے اور اس کی تشہیر میں پرنٹ میڈیا اور الیکڑانک میڈیا کو بھرپور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور اس دن کو خاص پروگرام دکھا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے کہ یہ ہم مسلمانوں ہی کا کوئی تہوار ہے۔
اس حقیقت کے بعد ساری بات واضح ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں اس طرح کے تہواروں کو پروان چڑھانا اسلامی معاشرے کی تباہی و بربادی پھیلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ہمیں اس کے بارے میں بہت گہرائی سے غور وفکر کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ ہمیں اپنی اسلامی اقدار کو محفوظ کرنا چاہیے اور ان پر عمل کرکے ایک اچھا مسلمان بن کر دکھانا چاہیے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہمارے اسلامی تہواروں کو ختم کیا جا رہا ہے سوچیں کیا کسی غیر مسلم نے بقرہ عید منائی؟ اس کا جواب یقیناً نہیں ہی ہوگا۔ تو پھر اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ غیر مسلموں کی اس مذموم سازش کو ناکام بنا کر اسلام کے اقدار کو اپنائیں۔
یاد رکھیں! اگر انسان بذاتِ خود شرم و حیا کے تقاضوں پر سختی سے عمل پیرا ہوگا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خَصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و حیا کا پاس نہ رکھے گا تو اس کی نسلوں تک میں بے حیائی کا ناسور سرایت کر جائے گا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حیا کو مُتأثّر کرنے والے تمام عَوامل سے حتیٰ الامکان طور پر دور رہا جائے اور اپنےتَشَخُّص اور روحِ ایمان کی حتی المقدور حفاظت کی جائے۔ آئیے آج اور ابھی سے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم سب مل کر بےحیائی اور فحاشی کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور سال کے 365 دن سر اٹھا کر یومِ حیاء منائیں گے۔
ان شاءاللہ
