88

آج کا نوجوان! پسِ منظر، پیش منظر اور مستقبل/تحریر/محمد اویس شاہد

نوجوان دنیا کی دوڑ میں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایجادات اور تحقیقات کر سکیں۔ سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے، ملکی سطح پر فنون لطیفہ اور کھیلوں کو پروان چڑھایا جائے، اس کے لیے نوجوانوں کو موزوں اداروں کے ساتھ ساتھ فکر معاش سے آزادی بھی فراہم کی جائے تاکہ وہ ملک کی کامیابیوں میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بهی کيا تو نے؟
وہ کيا گردوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے ميراث پائی تھی
ثريا سے زميں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

نوجوانوں سے اقبال کا یہ خطاب جہاں ماضی میں نوجوانوں کے تابناک کردار کی عکاسی کرتا ہے وہیں حال و مستقبل کے اندیشوں سے بھی بھرپور ہے۔ نوجوان کسی بھی معاشرے کا لازم اور سب سے اہم جزو ہوا کرتے ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جو قوموں کے عروج و زوال کا ضامن اور امین ہوتا ہے۔ نوجوانوں کے کردار پر گفت گو دور حاضر کا سب سے اہم اور حساس موضوع ہے۔ لیکن بنیادی فکرمیں کجی، درست سمت کے تعین کا فقدان اور جدید ٹیکنالوجی کی بھرمار نے اس موضوع کو ایک خاص دائرے تک منحصر کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر نوجوانوں کے کردار کی بات ہوتی بھی ہے تو وہ صرف بہتر روزگار، اور معاش تک محدود رہتی ہے۔ نوجوان قوم کا وہ قیمتی سرمایہ ہیں جو اپنی قوم کی سربلندی، دفاع، بڑھوتری اور ترقی کا ستون گردانے جاتے ہیں۔ ماضی میں نوجوانوں کا کردار آج کے دور کے نوجوان سے بہت مختلف تھا۔ ماضی میں تعمیر ملت کے ساتھ ساتھ تطہیرِ فکر بھی نوجوانوں کی تربیت کا حصہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ معاشرے امن و امان اور سلامتی کا گہوارہ تھے۔ ماضی کے نوجوانوں میں زمانے کے بہاؤ کے ساتھ بہنے کا شوق نہیں تھا، وہ اپنی اساسی تعلیمات اور قوم کے لیے بہتر فیصلوں اور مفادات کی بنا پر زمانے کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ آپ قرون اولیٰ کو اٹھا کر دیکھ لیجیے جب دنیا تیزی سے یونانی فلسفے کی جانب بہتی چلی جا رہی تھی تب چند نوجوان اٹھے اور یونانی فلسفے کے مقابل اپنی بنیاد پر قائم رہتے ہوئے اسلامی فلسفے اور علم الکلام کی بنیاد ڈالی۔ جب علم و ہنر نے دنیا میں پنپنا شروع کیا تو مسلم نوجوان اپنی قوموں کی ترقی کے لیے سرگرداں ہو گئے، تاریخ شاہد ہے کہ زمانے سے ٹکرا جانے کی اسی طلب نے ابن الہیثم، جابر بن حیان، فارابی، جاحظ، الخوارزمی، کندی، ابن فرناس، ابوبکر رازی، البیرونی، ابن سینا اور ان جیسے ہزاروں اہل علم پیدا کیے جنہوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اپنی ایجادات اور تحقیقات سے اپنی قوموں کے سر فخر سے بلند کر دیے۔ جب باطل سے ٹکرانے کی نوبت آئی تو اسامہ بن زید، محمد بن قاسم، طارق بن زیاد اور درجنوں نوجوان سپہ سالاروں کے نام سنہرے حروف سے اوراقِ تاریخ میں درج ہوئے۔ زیادہ دور کی بات نہیں، اگر ماضی قریب کا جائزہ بھی لیں تو پاک سرزمین کے قد کو بڑھانے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں ایسے نوجوانوں کا کردار شامل ہے جو اپنے مقاصد سے واقفیت اور فکری توازن میں اعتدال سے سرشار تھے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان، راشد منہاس، میجر راجہ عزیز بھٹی، اور ارفع کریم جیسے چند نام ہی مثال دینے کے لیے کافی ہیں۔ 2000ء کے بعد تیزی سے بدلتی دنیا نے جہاں عالمی سطح پر اقتصادی مسائل پیدا کیے وہیں ٹیکنالوجی کی جدید ترین شکلوں نے مقاصد کی تبدیلی، افکار میں تشدد، ہدف سے بے توجہی اور وقت کے ضیاع کو عام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان اپنے مقاصد، اہداف، درست سمت سے مکمل ناآشنا ہے، ٹیکنالوجی کے حصار میں جیتے آج کے انسان کو گلوبل ولیج بنتی دنیا نے اپنی قوم کے مسائل، اندیشوں اور خطرات سے ناآشنا کر دیا ہے۔ تیزی سے بگڑتے معاشی حالات نے نوجوانوں کو اجتماعیت اور عالمگیریت کی ڈور سے کاٹ کر انفرادیت کی کرچیوں میں بکھیر دیا ہے۔ کامیابی کا معیار بہتر معاش، لگژری طرزِ زندگی اور برانڈڈ کلکشن بن چکے ہیں۔ آج ایسی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں تحریکیں اور تنظیمیں موجود ہیں جو مسلم نوجوانوں کو دانستہ طور پر اپنی ماضی سے کٹ کر زندگی گزارنے کی خاموش تبلغ کے ہدف پر مصروف عمل ہیں۔ آج کے نوجوانوں کو ماضی سے توڑا جا رہا ہے، غیر محسوس انداز میں یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ تمھارے تابناک ماضی کی شخصیات کا تذکرہ سوائے کار عبث کے اور کچھ نہیں، ترقی کی معراج تبدیل ہوتی دنیا میں گردش زمانہ کے ساتھ رقص کرنے کا نام ہے، اور یہ کہ بہتر مستقبل کا انحصار مال و دولت اور جاہ و منصب پر ہے، اس لیے ان چیزوں کے حصول میں ہر قسم کی تمیز ختم ہونی چاہیے۔ انفرادی سطح پر سوچنے کی دعوت نے نوجوان کو اپنوں کے احساس سے کاٹ کر رکھ دیا ہے، آج ہم گلوبل ولیج میں جیتے ہوئے بھی قرنطینہ میں قید میں۔ تکثیریت، وسعت، عالمگیریت اور مشترکہ اقدار و مفادات کو روندا جا چکا ہے۔ لیکن یہ بھی مایوسی کا مقام نہیں، قوموں پر اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، مانا کہ ماضی کی بہ نسبت ہمارا مقابلہ جدید ٹیکنالوجی اور خاموش دشمنوں سے ہے، جذبہ حریت، عزت نفس، تعمیر ملت اور اجتماعیت کا جذبہ زندہ رکھنے کے لیے ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت درپیش ہے، لیکن اقبال کے بہ قول:
“نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی”
مٹی کو زرخیز کرنے کے لیے ہمیں اپنے نوجوانوں کا رشتہ ماضی کے کرداروں سے جوڑنا ہوگا۔ لیکن ساتھ ساتھ ہمیں تیزی سے تغیر پذیر دنیا کے علوم و فنون میں مہارت اور ترقی بھی ناگزیر ہے، ماضی اور حال کے اس حسین امتزاج سے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اپنی بنیادوں پر ہی بہتر مستقبل فراہم کر سکتے ہیں۔ ملک خداداد پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے ہمیں اپنے درست اہداف کا تعین کرنا ہوگا۔ آج کے نوجوان کو آج ہی اپنے بہتر مستقبل کے لیے موزوں اقدار کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی نسلوں کو بتانا ہوگا کہ ماضی کے کارنامے صرف سننے اور سنانے کے لیے نہیں ہوتے، بلکہ ان کا مقصد سابقہ جذبے، احساس اور صلاحیتوں کو نسل در نسل منتقل کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے حال میں اپنی تعمیر و تطہیر کے ذریعے مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ یہ بات تسلیم ہے کہ اس وقت ملکی حالات اور معیشت بہترین معاشرے کے معیار پر پورا نہیں اترتے، لیکن ہمیں اپنی روش کو یکسر تبدیل کیے بنا بدلتی دنیا پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔ اغیار کا آلہ کار بننے کے بجائے ہمیں اپنی اقدار و روایات کو زندہ رکھنا ہوگا۔ آج کے نوجوانوں کی تربیت کرنا ہوگی کہ مستقبل کی کمان تمھارے ہاتھ میں ہے، سرمایہ بھی تم ہو، لہذا اس سرمایے سے منفعت کا حصول ہی کامیابی ہے۔ راہوں کا انتخاب کرنے میں اپنے اسلاف کی روش سے ہٹنا عقل مندی نہیں، اجتماعیت کے بجائے انفرادیت کمال نہیں، ہمیں اپنے اسلاف کی زندگی سے سیکھتے ہوئے اتحاد و اتفاق اور تکثیریت کو پروان چڑھانا ہے۔
آج کے نوجوان کل کے معمار ہیں، یہاں ہم چند ایسے امور ذکر کرتے ہیں جن کی بہ دولت ہم اپنے حال اور مستقبل میں نوجوانوں کے کردار کو مؤثر اور مستحکم بنا سکتے ہیں، ہماری یہ گزارشات جہاں نوجوانوں سے متعلق ہیں وہیں مقتدر حلقوں اور حکمرانوں کے لیے بھی مقام فکر ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد 50 فیصد کے لگ بھگ ہے، گویا آدھی آبادی کو مستحکم بنانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ تعمیر فکر میں سب سے بڑا عنصر تعلیم ہے، پاکستان میں تعلیم کا تخمینہ اور معیار ہم سے ڈھکا چھپا نہیں، والدین اور حکمرانوں کی ذمے داری ہے کہ نوجونواں کو بہترین اور اعلیٰ تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ تعلیم یافتہ نوجوان میں کردار کی پختگی، سنجیدگی اور اعتدال غیر تعلیم یافتہ نوجوانوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ نیز تعلیم ہی ایسا واحد ذریعہ ہے جس کے نتیجے میں عصر حاضر کی جدید ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کر کے خاموش دشمن کا مقابلہ کرنا ممکن ہوتا ہے۔ نوجوانوں کو ٹیکنالوجی کے میدان میں مہارت فراہم کرنا اور پھر اس مہارت کو اپنے ملک کے لیے استعمال کرنا پاکستان کو دنیا میں سرفراز کروا سکتا ہے۔ اس کے لیے اعلیٰ تعلیم کے بعد نوجوانوں کے لیے روزگار اور کاروبار کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ معاشی طور پر مستحکم نوجوان مالی وسائل سے بے نیاز ہوتا ہے، اور دل جمعی، لگن اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر ملک و قوم کی خدمت کر سکتا ہے۔ کاروبار اور روزگار کے مواقع موقوف ہیں صنعتی ترقی پر۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں پر انحصار کے بجائے ملکی سطح پر پیداوار اور افزائش کو ترویج دینے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ باصلاحیت نوجوانوں کو روزگار کی تلاش میں ملک سے ہجرت نہ کرنی پڑے اور اپنے ملک میں رہتے ہوئے اپنی ہی قوم کے لیے صلاحیتوں کو وقف کر سکیں۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ مصنوعی پیداوار کے اس دور میں اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں۔ مصنوعی پیداوار انسانی ذہن کی نشو نما اور کارکردگی کے لیے زہر قاتل ہیں، صحت مند غذا کا استعمال ذہنی نشو نما میں بے حد معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ نیز حکمرانوں کو چاہیے کہ نوجوانوں کے لیے سائنس کے میدان کو وسیع کیا جائے، ان کی صلاحیتوں کے مطابق تحقیقی میدان فراہم کیے جائیں، اور غیر فعال تحقیقی اور سائنسی اداروں کو فعال کیا جائے، تاکہ نوجوان دنیا کی دوڑ میں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایجادات اور تحقیقات کر سکیں۔ سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے، ملکی سطح پر فنون لطیفہ اور کھیلوں کو پروان چڑھایا جائے، اس کے لیے نوجوانوں کو موزوں اداروں کے ساتھ ساتھ فکر معاش سے آزادی بھی فراہم کی جائے تاکہ وہ ملک کی کامیابیوں میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ تحقیقی اداروں اور ویب سائٹس کو قومی سطح پر مفت کیا جائے اور ایسے وکیشنل سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے جن میں کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی ہنر مند بنایا جا سکے، تاکہ وہ معاشرے پر بوجھ بننے کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں اور بہ وقت ضرورت ملک کی تعمیر و ترقی میں معاون ثابت ہوں۔ تعلیمی اداروں سے سیاست کا انخلا عمل میں لایا جائے، دوران تعلیم نوجوان تمام تر سیاسی سرگرمیوں اور وابستگیوں سے دور رہیں، تاکہ ان میں لسانیت، قومیت اور عصبیت کے عناصر پروان نہ چڑھ سکیں۔ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے تاکہ باصلاحیت افراد کو بلا جھجھک اور روک ٹوک اپنے متعلقہ شعبہ جات میں کام کرنے کے مواقع میسر آسکیں۔ تحقیق و تصنیف سے وابستہ نوجوانوں کو مناسب معاوضہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ فکر معاش سے آزاد رہ کر کام کر سکیں۔ سب سے اہم نکتہ جس میں نوجوان سب سے زیادہ لاپرواہی برتتے ہیں وہ سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال ہے، نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا کو فقط مثبت امور میں رہنمائی کی غرض سے استعمال کریں اور غیر ضروری سرگرمیوں سے دور رہیں، تاکہ ان کی صحت اور صلاحیت پر کوئی اثر نہ پڑے۔ سوشل میڈیا کے منفی استعمال سے نوجوانوں میں قائدانہ صلاحیتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ مصنوعی ذہانت میں آج سے ہی قدم جما کر ملکی اداروں کو مستحکم کرنا ہے۔ صالحیت اور صلاحیت کا امتزاج نوجوانوں کے کردار کی بڑھوتری اور پختگی کا علم بردار ہے۔ لہذا صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ صالحیت پیدا کرنے کے اقدامات بھی کیے جائیں تاکہ معاشرہ پرامن رہ سکے، انتشار، نفرت، حسد، آگے بڑھنے کی دوڑ اور منفی جذبات کا خاتمہ ہو۔ یہ تمام ایسے امور ہیں جن کے ذریعے آج کے نوجوان اپنے مستقبل کی ترقی اور تعمیر کا بیج بو سکتے ہیں، یہ بیج عنقریب ایک تنا آور درخت کی صورت میں اپنی پوری آب و تاب سے آنے والی نسلوں کی حفاظت کرے گا۔
الغرض ہمیں معاشرت اور معیشت میں توازن پیدا کرنا ہے۔ فکر، بیان، اور عمل میں اعتدال کی راہ اپنانی ہے۔ اپنوں سے دست و گریباں ہونے کے بجائے اپنوں کے لیے ہمدردی اور احساس کے جذبات کو فروغ دینا ہے۔ قومیت، لسانیت، عصبیت، اور انفرادیت کے دبیر پردوں کو چاک کرنا ہے، نمودِ سحر کی نوید کا استعارہ بننا ہے، جذبہِ خودی کو بیدار کرنا ہے، خودپسندی کے جذبات کو دبانا ہے، اور دنیا کو اپنی اور اپنے وطن کی شان بتاتے ہوئے یہ پیغام سنانا ہے کہ:
بجلی ہوں نظر کوہ و بیاباں پہ ہے میری
میرے لیے شایاں خس و خاشاک نہیں ہے
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں