106

اخلاق سے آزادی / تحریر / روحان دانش

روحان دانش

پاکستان کی خالق جماعت ہونے کی دعویدار مسلم لیگ کے دور حکومت میں چند روز پہلے عین یومِ آزادی کے دن یوم آزادی کے نام پر ہونے والی سرکاری تقریب میں لبرل ازم اور اخلاقی آزادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کی بیٹیوں ،بیٹوں سے بھارتی فلموں کی طرز پر ڈانس کروایا گیا جب کہ تقریب میں وزیر اعظم، اُن کی کابینہ، اراکینِ اسمبلی سمیت جے یو آئی کے عالم وزیر بھی موجود تھے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
یہ شہدا کے خون کے ساتھ پرلے درجے کی بے اعتنائی ہے۔ گویا پاکستان کی اسلامی نظریاتی اساس کا خود سرکاری سطح پر کھلا مذاق اڑایا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تقریب میں اللہ کے اس انعام۔۔۔آزاد وطن کی اس عطا پر اس کا شکر ادا کیا جاتا، اس کی حمد و ثنا بیان ہوتی اور شہدائے ہجرت کے لواحقین کو سراہا جاتا، ان کی پذیرائی ان کی دل جوئی کی جاتی، ملک بھر سے ان غازیان ہجرت کو جو بقید حیات ہیں، بصد احترام تقریب میں لایا جاتا، آج یوم آزادی کے روز ان نابغہ روزگار کو سلامی پیش کی جاتی، انھیں قومی ہیروز قرار دیا جاتا اور حکومت ان کی سرکاری سرپرستی کا اعلان کرتی ان کے وظائف مقرر کرتی مگر یہاں تو معاملہ بالکل اس کے برعکس رہا۔ اس طرز کی تقریب کو جشن آزادی نہیں بلکہ شہداء و مہاجرین آزادی کے زخموں کے لیے نمک پاشی قرار دیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح اسلام آباد کے سیاحتی مقام شکر پڑیاں سے ایک اور ایسی دل گرفتہ خبر بھی موصول ہوئی کہ چند غیر ملکی خواتین کے ساتھ کچھ اوباش نوجوانوں نے بدتمیزی کی اور اُنہیں ہراساں کیا۔ گویا ہم نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ بحیثیت قوم ہم اخلاقی طور پر ایسی تنزلی کا شکار ہو چکے ہیں کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
اہل اختیار و اقتدار سے میرا سوال ہے کہ ہم درحقیقت جشن منا کس بات کا رہے ہیں؟
اپنے معاشرے خاص طور پر نوجوانوں کے اس اخلاقی انحطاط کا جس کی تربیت کی ذمہ داری سے قومی غفلت برتی گئی ہے یا اس بے سکونی اور اذیت کا جو مہنگائی، بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ اور جابجا نا انصافی کی صورت ہمارے معاشرے میں سرایت ہے۔
آزادی ایک بڑی نعمت ہے اور یقینا ہے جو ہم نے بفضل تعالی حاصل کر لی لیکن آزادی کے بعد ہم نے اپنے اس پیارے ملک کا حشر کیا کیا ؟
خاندانی اقدار و روایات جو ہمارا امتیاز تھیں آج کہیں نظر نہیں آتیں، معاشرہ تباہ، معیشت تباہ، تربیت ہے نہ تعلیم، برداشت و رواداری ہوا، صحت و صفائی کی سہولیات ندارد، 75 سالوں سے ہر سال سینکڑوں، ہزاروں لوگ، بیسیوں قصبے اور دیہات مع مال و متاع سیلاب کی نظر ہو جاتے ہے مگر ہماری کوئی بھی حکومت اس مد میں ایک بھی مختصر و طویل مدتی منصوبہ شروع نہیں کر سکی سوائے بعض جگہوں پر چند وقتی اقدامات کے۔
امسال و تاحال بلوچستان، جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں اب تک سیلاب نے تباہی کی کئی ایک داستانیں رقم کر دی ہیں مگر ہمارے سیاست دان حزب اقتدار سے ہوں خواہ حزب اختلاف سے ہر دو اطراف سے عملی اقدامات صفر ہیں۔
سیلاب زدہ علاقوں کے باسیوں کی بے چارگی اور حالت زار کی تصویریں سوشل میڈیا پر مسلسل گردش میں ہیں جنھیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے مگر سیاستدانوں اور متعلقہ اداروں نے تو بس بے حسی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔
یہ تو اللہ بھلا کرے ان چند غیر سرکاری تنظیموں اور جماعت اسلامی کے رضاکاروں کا جو اپنی مدد آپ کے تحت محصورین سیلاب کی مدد کے لیے بر سر میدان ہیں۔
ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دے کر آزادی اس لئے حاصل کی تھی کہ ہم ایک مثالی قوم بنیں گے، پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنائیں گے لیکن بحیثیت قوم ہم اپنی اس ذمہ داری کے ادا کرنے سے غافل رہے نتیجتا اخلاقی سطح پر ہمارا معاشرہ مسلسل اور خطرناک حد تک انحطاط پذیر ہے۔ قومی اخلاقیات میں خجالت ہی خجالت ہے۔
کون سی خرابی ہے جو آج ہم میں موجود نہیں ؟ معاشرتی اور اخلاقی اقدار جنھیں ہماری حکومت کا چلن ہونا تھا اور قوم میں ان کی ترویج جہاں حکومت کی اولین ذمہ داری ہونا چاہیے تھی صد افسوس کہ ہمارے اخلاقی تنزلی کے اس سفر کی ذمہ دار ہی ہمیشہ اور ہر حکومت رہی ہے۔ اور ستم پر ستم یہ ہے کہ قومی تربیت کے حوالے سے اہل سیاست کا کردار تو قابل گرفت ہے ہی مگر اس بنیادی ذمہ داری کو نبھانے میں ہمارے اہل دانش، ہمارے علماء، اساتذہ حتی کہ والدین تک کا کردار بھی حوصلہ افزا اور نتیجہ خیز نہیں رہا۔
حکومت کو اپنی ذمہ داری کا احساس اور اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ نظریہ پاکستان ہی وطن عزیز کی اساس ہے۔ اور صرف یہی نظریہ ہی ملکی وحدت کا ضامن ہے۔ عمران خان دور حکومت میں قائم کردہ رحمت اللعالمین اتھارٹی ایک بہترین اقدام ہے، قوم کی اجتماعی تربیت بالخصوص نوجوانوں کی کردار سازی کے لیے دیگر ضروری اقدامات کے ساتھ اس اتھارٹی کو بھی ہنگامی بنیادوں پر فعال کیا جانا چاہیے۔ وگرنہ حضرت علامہ کے الفاظ میں:
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں