172

استاد جی کا مولا بخش / تحریر / محمد کاشف قمر

محمد کاشف قمر

مولابخش ایک ایسامیزبان ہے جوہر طفلِ مکتب کو اپنی میزبانی کاشرف عطاکرتاہی ہے۔ وقت کے گزرتے جب کبھی طفلانِ مکتب ایک ساتھ گپ جوئی میں مصروف ہوتے ہیں تو ان کی ہنسی اردگردکے ماحول کو بھی خوشگواربنادیتی ہے خیرمولابخش کی کرامتیں تو قدم بہ قدم ساتھ رہی ہیں لیکن ان میں سے ایک معمولی سی شرارتی کرن سے اس تحریر کو منور کرتے ہیں ۔
بلاتمہید ۔۔۔۔ہم جب طفلِ مکتب میں قدم رنجا ہوئے توشروع دور سے مکتب کو ہی اپنا اوڑھنابچھونا بنائے رکھتے تھے لیکن اس لیے نہیں کہ مکتب سے کچھ خاص لگاؤ اورتعلیم سے آشنائی کے رسیاتھے بلکہ اس لیے کہ ہم اس شرارتی ونگ میں اپنی بلاناغہ حاضری کو سعادت سمجھتے تھے جو کہ ہر مکتب میں معلم محترم کی ناک میں دم کرنے کے لیے ہمہ تن اپنی شاطرانہ سوچ،شرارتی مزاج اور اردگرد میں موجود اشیاء کو آلاتِ حرب بناتے ہوئے تیاررہتے تھے ۔بس اسی طرح ایک مرتبہ رات عشاء کے کافی بعد شرارتوں کا آغاز ہوا اوراس حدتک بڑھا کہ جنگی ماردھاڑ شروع ہوئی تو کوئی اپنے دفاع کے لیے کلاس روم کے دروازے کے پیچھے چھپ رہا تھا تو کوئی بالائی منزل کی جانب بھاگتانظر آرہاتھا اورہم اپنے ونگ کے ساتھ ہر بھگوڑے کاتعاقب کرتے ہر پوشیدہ مقام تلاش جاری رکھے ہوئے تھے کہ ایک شکار ہمیں جنگی میدان سے نچلی منزل کی جانب دوڑتا نظر آیاپس ہم بھی بہادرانہ صلاحیتوں  کو بروکار لائے اور اس کے پیچھے دوڑے اوردیکھا کہ شکاراپنی کجھاڑ کی تلاش میں وضو خانہ میں گیا اورایک بیت الخلاء میں چھپ گیا ۔
اب ہم نے دفعتاًاس مقام کو متعین کرناتھا جس میں ہمارا شکار موجود تھا اوراس کی گرفتاری کو بھی یقینی بنانا تھا ۔پس پھر کیا تھا ہم نے بھی اپنے دماغ کو بیدارکیا اور ایک مقام کا تعین کرڈالاجب شکار کی کھجاڑ متعین ہوگئی تو سوال یہ پیدا ہوا کہ اب اس کو گرفتارکیسے کیا جائے ؟دائیں بائیں دیکھا تو ہمیں اپنے وضو خانہ میں پانی کا پائپ نظرآیااورفی الفور اس کو استعمال کرکے گرفتاری کے مرحلہ میں آگے بڑھے اورپائپ کے ایک سرے کو پانی کی موٹر کے وال میں لگایا اور دوسرے سرے کودروازے کے اوپر موجود کھلے حصہ سے اندر کی جانب دھکیل دیااور موٹر کوآن کیا پانی کابرساتی پرنالہ اندر موجود ہمارے ٹارگٹ کو مجبور کررہاتھا کہ اب وہ برساتی پرنالہ سے بچتے ہوئے گرفتاری کو یقینی بنائے بس چندلمحوں بعد ہی دروازہ کھلا اورہم لمحہ واحد میں فتح یا بی سے کوسوں دور جاپہنچے اورناکامی کی اس کھائی میں گر ے کہ جہاں پر مولابخش اپنی تمام تررعنائیوں اورخوشی کے طبل بجاتے تیار تھا کیوں کہ باہر برآمد ہونے والی شخصیت ہمارا ٹارگٹ نہیں بلکہ مولابخش کابہترین استعمال کرنے والے ناظم تعلیمات صاحب تھے جو کہ گیلاکپڑے اوربدن لیے سامنے تھے جب کہ ہمارا ٹارگٹ کسی دوسری لائن کے کسی محفوظ مقام سے نکل کر کب کاہمارے پیچھے کھڑا تماشہ دیکھ رہا تھا ۔
بس اب آپ نتیجہ تو خود ہی برآمد کرسکتے ہیں کہ پھر کیاہوا؟؟؟ پس ہم تھے ،مولابخش تھا ،،ہماری تشریف تھی اورآہ وبکا۔۔۔ اف خدایا آج بھی جب اس دورکے چلبلے ہم نشین ساتھ ہوتے ہیں تو ہم کو شرمندگی کے سمندر میں غوطے تو لگا نے پڑتے ہی ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

استاد جی کا مولا بخش / تحریر / محمد کاشف قمر“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں