65

اسماء بنت صدیق؅ حق پرستی و جرأت ایمانی کی پیکر /تحریر/اعجاز خاں میو 

  السابقو ن الاولون میں اٹھارواں نمبر،   افضل البشرسیدنا ابو بکر صدیق  ؄  کی  جلیل القدر بیٹی ،حضور اکرم ﷺ کی خواہر نسبتی ، سیدہ عائشہ صدیقہ بہن ، عشرہ مبشرہ حضرت زبیر بن العوام؄ کی زوجہ محترمہ ، حضرت عبداللہ بن زبیر ؄ جن کی پیدائش پرنعرۂ تکبیر پر مدینہ منورہ کے دشت و جبل گونج اٹھے تھے کی  والدہ ماجدہ  جنہیں پیغمبر اسلام ﷺ نے ہجرت کے موقعہ پر ’’ذات النطاقین‘‘کے لقب سے نوازا ۔  آپ وہی خاتون  ہیں جس   نے اپنے لخت جگر کی دردناک شہادت کے موقع پر حق پرستی ،بے خوفی ،صبر و رضا اور جرأت ایمانی کا ثبوت دیا وہ ان کی کتاب ِ زندگی کا ایک تابناک  ورق ہے ۔   

    حضرت اسماء بنت صدیق؅   ہجرت نبوی سے ستائیس برس قبل مکہ معظمہ میں پیداہوئیں۔  حضرت اسماء؅ کا نکاح حضرت زبیر بن العوام؄  سے ہوا۔ حضرت زبیر بن العوام؄  سرکارِ عالم ﷺکے پھوپھی زاد بھائی اور ام ا لمومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ؅ کے بھتیجےتھے ۔ 

    ہجرت کے وقت حضرت ابو بکر صدیق؄ کے مکان میں جب حضور ﷺ کا توشہ سفر ایک تھیلے میں رکھا گیا اور اس تھیلے کا منہ باندھنے کے لیے کچھ نہ ملا تو حضرت اسماء ؅نے فوراً اپنی کمر کے پٹکے کو پھاڑ کر اس توشہ دان کا منہ باندھ دیا۔ اسی دن سے ان کو ذات النطاقین (دوپٹکے والی) کا معزز لقب ملا۔  

    اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ ؅ فرماتی ہیں: 

    ’’ حضورﷺ کے ہجرت پر روانہ ہونے کے وقت ہم نے جلدی جلدی کچھ کھانا بنا کر ایک تھیلے میں رکھ دیالیکن اُسے باندھنے کے لیے کوئی چیز موجود نہیں تھی  چنانچہ  بڑی بہن اسماءؓ نے اپنے نطاق کے(کمر سے باندھنے والا کپڑا) دو ٹکڑے کیے اور ایک ٹکڑے سے تھیلے کا منہ باندھ دیا۔ یہی وہ اعزاز تھا، جس کی بنا پر وہ’’ذات النطاقین‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہیں ۔‘‘

    حضرت اسماء؅ نے اپنے شوہر حضرت زبیر بن العوام ؄کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی ۔ ہجرت کے بعد اتفاق سے ایک عرصہ تک کسی مہاجر کے ہاں اولاد نہ ہوئی ۔ اس پر یہود مدینہ نے مشہور کردیا کہ ہم نے مسلمانوں پر جادو کردیا ہے اور ان کا سلسلہء نسل منقطع کردیا ہے ۔ یہی دن تھے کہ 1 ہجری میں حضرت اسماء؅  کے بطن سے حضرت عبداللہ بن زبیر؄  پیدا ہوئے ۔ گویا ہجرت کے بعد وہ مسلمانوں کے نومولودِ اول تھے ـ ۔( کچھ روایتوں میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کا سال ولادت سن دو ہجری بیان کیا گیا ہے ۔)  مسلمانوں کو حضرت عبداللہ؄  کی ولادت پر بے حد خوشی ہوئی اور انہوں نے خوشی  سے اس قدر زور سے نعرہ ہائے تکبیر بلند  کئے کہ  دشت وجبل گونج اٹھے۔ یہودی سخت شرمندہ ہوئے کیونکہ ان کے  دجل وتلبیس کا پردہ چاک ہوگیا ۔  

    حضرت  اسماء؅بچے (عبداللہ ؓ ) کو گود میں لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ آپﷺ نے بچے کو اپنی آغوش مبارک میں لے لیا ۔ایک کھجور اپنے دہن مبارک میں ڈال کر چبائی اور پھر اسے اپنے لعاب دہن کے ساتھ ملا کر ننھے عبداللہ  ؓ کے منہ میں ڈالا ۔اس کے بعد حضورﷺنے بچے کے لئے دعائے خیر و برکت مانگی ۔ امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ؅نے اپنے انہی بھانجے کے نام پر اپنی کنیت ’’ امِّ عبد اللہ ‘‘ رکھی تھی ۔ 

        قبا میں قیام کے دوران پہلے چند سال حضرت اسماء ؅ نے اپنے شوہر حضرت زبیر؄  کے ساتھ بڑی تنگدستی اور مفلسی میں گزارے تھے ۔ شروع شروع میں  آ پ  ؅نے حضور  ﷺ کی طرف سے دی گئی زمین کے ٹکڑے جو مدینہ سے تین فرسخ دور تھا پر کاشت کرکے اپنی معاش کا سامان پیدا کیا ۔ حضرت اسماء ؅ کھجور کی گٹھلیاں جمع کر تیں انہیں کوٹ کر اونٹ کو کھلاتیں ۔ گھوڑے کے لئے گھاس مہیا کرتیں ،پانی بھرتیں ، مشک پھٹ جاتی تو اس کو  سیتیں ۔ان کاموں کے علاوہ گھر کا دوسرا کام بھی خود ہی کرتیں ۔ کہتے ہیں حضرت اسماء؅روٹی اچھی طرح نہ پکاسکتی تھیں۔ پڑوس میں چند انصاری خواتین تھیں وہ ازراہ ِ محبت و اخلاص ان کی روٹیاں پکا دیتی تھیں ۔

    کچھ عرصہ بعد حضرت ابو بکر صدیق؄ نے انہیں ایک غلام دیا ۔جس نے گھوڑے اور اونٹ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھال لی۔ اس طرح حضرت اسماء ؅ کی مصیبت کم ہوئی ۔ حضرت اسماء؅کو حضورﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ خرچ ناپ تول کر کرے ورنہ اللہ تعالیٰ بھی نپی تلی روزی دے گا۔ اس کے بعد حضرت اسماء؅آسودہ حال ہوئیں تو انہوں نے اپنی سادگی کو ترک نہ کیا ۔ 

      افضل البشرسیدنا ابو بکر صدیق  ؄ کے نواسے ،حضرت اسماء (ذات النّطاقین )؅ کے فرزندحضرت عبداللہ بن زبیر  ؄ تاریخ اسلام میں بڑی اہم  شخصیت کے مالک ہیں۔حضرت عبداللہ بن زبیر  ؄ علم وفضل ، زہد و اتقا ، حق گوئی ،شجاعت اور بے خوفی کا ایک مثالی پیکر ہیں  اور آپ ؓ کی شہادت تاریخ کا ایک درد ناک باب ہے ۔ اس موقع پر حضرت اسماء بنت صدیق؅ نےجس حق پرستی ،بے خوفی ،صبر و رضا اور جرأت ایمانی کا ثبوت دیا وہ ان کی کتاب ِ زندگی کا ایک تابناک ورق ہے ۔   

    سیدنا امام حسین ؄ کی المناک شہادت کے بعد  حضرت عبداللہ بن زبیر ؄ نے یزید،مختار ثقفی،عبدالملک اور خوارج کا مقابلہ جس استقامت اور شجاعت سے کیا وہ اپنی  مثال آپ ہے ۔ سیدنا امام حسین ؄ کی طرح انہوں نے بھی مرتے دم تک یزید کی بیعت نہ کی اور پھر اس کی موت کے بعد بھی اس کے جانشینوں کے مقابلے میں ڈٹے رہے ۔ 

    66   ہجری میں عراق اور حجاز وغیرہ کے لوگوں نے انہیں متفقہ طور پر اپنا خلیفہ منتخب کیا ۔73ہجری تک انہوں نے مکہ معظمہ میں اپنا علم خلافت بلند رکھا۔ ان چھ سالوں میں انہیں بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا پڑا ۔ ایک طرف مختار بن ابی عبیدثقفی کی زبردست جماعت تھی اور دوسری طرف بنو امیہ کی قاہر قوت ۔ آپ ؓ بڑے عزم اور حوصلہ کے ساتھ ان دونوں محاذوں پر لڑتے رہے ۔ 

    جب عبد الملک بن مروان نے مسند حکومت سنبھالی تو اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ عبد اللہ بن زبیر ؄ کی خلافت کو ختم کرکے دم لے گا ۔ اس مقصد کے لئے اس نے اپنے ایک آزمودہ کار جرنیل حجاج بن یوسف ثقفی کو مقرر کیا ۔ حجاج بن یوسف نے ایک زبردست فوج کے ساتھ یکم ذی الحجہ 73ہجری کو مکہ معظمہ کا محاصرہ کر لیا ۔حضرت عبد اللہ بن زبیر  ؄نے بے مثال استقامت دکھائی اور چھ ماہ تک اموی فوج کو مکہ معظمہ پر قابض نہ ہو نے دیا ۔ حجاج نے محاصرہ اس قدر سخت کیا کہ مکہ میں اناج  ایک دانہ بھی نہیں پہنچ سکتا تھا ۔ اس نے بیت اللہ کی عزت و حرمت کو بھی بالائے طاق رکھ دیا اور منجنیق سے کعبۃ اللہ پر مسلسل پتھر برسائے ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؄ پتھروں کی بارش میں بھی اس انہماک سے نماز پڑھتے تھے کہ کبوتر ان کے کندھوں اور سر پر آکر بیٹھ جاتے تھے ۔ 

    محاصرے کی شدت اور خوراک کی قلت سے تنگ آکر آپ ؓ کے اکثر ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ کر حجاج بن یوسف سے جا ملے ۔ حتیٰ کہ ان کے اپنے فر زندوں نے بھی بے وفائی کی اورحجاج بن یوسف کے پاس جاکر امان کے طالب ہوئے ۔ لیکن اس 73سال کے بوڑھے شیر نے بنو امیہ کے اقتدار کو تسلیم نہ کیا ۔ 

    دوران محاصرہ ایک دن حضرت عبداللہ بن زبیر ؄  اپنی ضعیف العمر والدہ حضرت اسماء؅ کی مزاج پرسی کے لئے حاضر خدمت ہوئے ۔وہ کچھ علیل تھیں ۔دوران گفتگو آپ ؓ کے منہ سے نکل گیا کہ اماں جان ! موت میں بڑی راحت ہے ۔ بولیں شاید تم کو میرے مرنے کی آرزو ہے (کہ ضعیف العمری کے دکھوں سے نجات پا جائوں ) لیکن بیٹے میں تمہارا انجام دیکھ کر مرنا چاہتی ہوں تاکہ اگر تمہیں شہادت نصیب ہو تواپنے ہاتھوں سے تمہارا کفن دفن کروں اور اگر تم فتح پائو تو میرا دل ٹھنڈا ہو ۔ اس واقعہ کے دس دن بعد جب گنتی کے صرف چند ساتھی رہ گئے تو آپؓ آخری بار حضرت اسماء؅ کی خدمت میں حاضرہوئے  اور عرض کی : 

    ’’  اماں جان ! میرے ساتھیوں نے بے وفائی کی ہے ۔اب سوائے چند جاں نثاروں کے کوئی بھی میرا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ۔آپ کی کیا رائے ہے ؟ اگر ہتھیار ڈال دوں تو ہو سکتا ہے  کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو امان مل جائے ۔ ‘‘

     حضرت اسماء ؅نے جواب دیا: 

    ’’  اے میرے فرزند ! اگر تم حق پر ہو تو مردوں کی طرح لڑ کر رتبۂ شہادت پر فائز ہو جائو اور کسی قسم کی ذلت برداشت نہ کرو۔ اگر یہ تمہارا  سب کچھ دنیا طلبی کے لئے تھا  تو تم سے برا کوئی شخص نہیں جس نے اپنی عاقبت بھی خراب کی اور دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالا۔ ‘‘

    ایک اور روایت میں حضرت اسماء ؅سے یہ الفاظ منسوب ہیں: 

    ’’  بیٹا! قتل کے خوف سے ہرگز کوئی ایسی شرط قبول نہ کرنا جس میں تم کو ذلت برداشت کرنی پڑے ۔خدا کی قسم ! عزت کے ساتھ تلوار کھاکر مرجانا اس سے بہتر ہے کہ ذلت کے ساتھ کوڑے کی مار برداشت کی جائے ۔ ‘‘

    عبداللہ بن زبیر   ؄نے جواب دیا : 

    ’’  اماں جان ! میں حق و صداقت کے لئے لڑا اور حق وصداقت کے لئے ساتھیوں کو لڑایا ۔اب آپ سے رخصت ہو نے کے لئے آیا ہوں ۔ ‘‘

    حضرت اسماء ؅نے فرمایا: 

    ’’  بیٹا ! اگر تم حق پر ہو توحالات کی نا موافقت اور ساتھیوں کی بے وفائی کے سبب دشمنوں سے دب جا نا شریفوں اور دینداروں کا شیوہ نہیں ۔ ‘‘

    ابن زبیر  ؄نے عرض کیا: 

    ’’  اماں جان! میں موت سے نہیں ڈرتا ۔صرف یہ خیال ہے کہ میری موت کے بعد دشمن میری لاش کا مُثلہ کریں گے اور صلیب پر لٹکائیں گے جس سے آپ 

کو رنج ہو گا ۔ ‘‘

    سیدنا صدیق اکبر  ؄کی جلیل القدر بیٹی نے فرمایا : 

    ’’  بیٹے جب بکری ذبح کر ڈالی جائے تو پھر اس کی کھال کھینچی جائے یا اس کے جسم کے ٹکڑے کئے جائیں ، اسے کیا پرواہ ؟ تم اللہ پر بھروسہ کرکے اپنا کام کیے جائو ،راہ حق میں تلواروں سے قیمہ ہو جانا گمراہوں کی غلامی سے ہزار درجہ بہتر ہے ۔ موت کے خوف سے غلامی کی ذلّت کبھی قبول نہ کرنا ۔ ‘‘

    اپنی عظیم ماں کے حوصلہ افزاء کلمات سن کر ابن زبیر ؄ پر رقت طاری ہو گئی اور فرطِ محبت و عقیدت سے انہوں نے اپنی والدہ کا سر چوم لیا۔ پھر عرض کیا : 

    ’’  اماں جان !میرا بھی یہی ارادہ تھا کہ راہ حق میں مردانہ وار لڑکر جان دوں لیکن آپ سے مشورہ ضروری سمجھا تاکہ میرے مرنے کے بعد آپ رنج و غم نہ کریں ۔ الحمد للہ ! میں نے آپ کو اپنے سے بڑھ کر ثابت قدم اور راضی برضا پایا ۔ آپ کی با توں  نے میرا ایمان تازہ کر دیا ہے ۔ آج میں ضرور قتل ہو جائوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ میرے قتل کے بعد بھی آپ صبر و شکر سے کام لیں گی۔ خدا کی قسم !میں سچ عرض کرتا ہوں کہ آج تک میںنے جو کچھ کیا وہ سب حق کو بلند کرنے کے لیے تھا ۔میں نے کبھی برائی کو پسند نہیں کیا ،کسی مسلمان پر ظلم نہیں کیا،کبھی بد عہدی نہیں کی ،کبھی امانت میں خیانت نہیں کی ۔اپنے عُمّال کا کڑا محاسبہ کیا اور اپنی حدود خلافت میں جہاں تک بن پڑا عدل جاری کیا ۔ لوگوں سے خدا اور رسول ﷺکے احکام کی تعمیل کروائی اور اعمالِ بد سے انہیں روکا ۔ بخدا  !میں دین کے آگے دنیا کو ہیچ سمجھتا ہوں۔اللہ کی رضا کے سوا مجھے کوئی شے مطلوب نہیں ۔‘‘ 

    پھر آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور کہا: 

    ’’  الٰہی ! میں نے یہ باتیں فخر کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اپنی الدہ محترمہ کی تسکین اور اطمینان کے لیے کہی ہیں ۔ ‘‘

    حضرت اسماء ؅نے انہیں دعا دی اور فرمایا: 

    ’’  بیٹے! تم اللہ کی راہ میں جان دو، میں ان شاءاللہ صابر و شاکر رہوں گی ۔ اب آگے آئو تاکہ آخری بار تمہیں پیار کر لوں ۔ ‘‘

        حضرت عبداللہ بن زبیر ؄ نے تلوار سونت لی اور رجز پڑھتے ہوئے دشمن کی صفوں میں گھس گئے ۔کافی دیر تک دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے ۔آخر کا ر زخموں سے چور چور ہو کر سیدنا صدیق اکبر؄ کا یہ اولوالعزم نواسہ اور حضرت اسماء؅ کا لخت جگر اپنے مولائے حقیقی سے جا ملا ۔ ‘‘

        حضرت اسماء؅کی زندگی کے آخری ایام میں ان کے بیٹے حضرت منذر بن زبیر  ؄  عراق کی فتح کے بعد مال غنیمت کے حصے میں سے کچھ زنانہ کپڑے بھی لائے تھے ۔انہیں لے کر اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے یہ کہہ کر کپڑے قبول کرنے  ْْْْْْْْْْْْْْسے انکار کردیا کہ مجھے تو موٹا کپڑا پسند ہے۔  

    حضرت اسماء؅کمال درجے کی عابدہ اور زاہدہ تھیں۔ کثرت عبادت کی وجہ سے ان کے تقدس کاعام شہرہ ہوگیا ۔ اور طرح طرح کے مریض ان کے پاس دعائے خیر کرانے آتے تھے ۔ اگر کوئی بخار کا مریض ان کے پاس آتا تو اسکے لئے دعا کرتیں اور پھر اس کے سینے پر پانی چھڑکتیں ، اللہ تعالیٰ اسے شفا دے دیتا ۔ فرمایا کرتی تھیں ’’ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ بخار نارِ جہنم کی آگ ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کرو۔‘‘ 

    گھرکاکوئی آدمی بیمار ہوتا توآنحضرت ﷺ کا جبہ (جس کوحضرت عائشہ؅نے وفات کے وقت ان کے سپرد کیا تھا) دھوتی اور اس کا پانی پلاتی تھیں، اس سے بیمار کوشفا ہوجاتی تھی۔

     حضرت اسماء ؅نے کئی حج کیے۔پہلا حج آنحضرت ﷺ کے ساتھ کیا تھا ۔اس میں جوکچھ دیکھا تھا  ان کوبالکل یاد تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ کے بعد جب حج کے لیے آئیں اور مزدلفہ میں ٹھہریں تورات کونماز پڑھی پھراپنے غلام سے پوچھا: چاند چھپ گیا۔ اس نے کہا نہیں۔ جب چاند ڈوب گیا  توبولیں کہ اب رمی کے لیے چلو۔رمی کے بعد پھرواپس آئیں اور صبح کی نماز پڑھی۔ اس نے کہا آپ نے بڑی عجلت کی۔فرمایا آنحضرت ﷺنے پردہ نشینوں کواس کی اجازت دی ہے ۔ جب کبھی حجون سے گذرتیںتوکہتیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں یہاں ٹھہرے تھے۔ اس وقت ہمارے پاس بہت کم سامان تھا۔ہم نے اور عائشہ؅اور زبیر  ؄ نے عمرہ کیا تھا اور طواف کیا تھا۔ 

      حضرت اسماء؅بہت نڈر اور شجاع تھیں ۔ ایک روایت کے مطابق حضورﷺکے وصال کے بعد وہ اپنے شوہر اور فرزند کے ساتھ شام کے میدانِ جہاد میں تشریف لے گئیں اور کئی دوسری خواتین کی طرح یرموک کی ہولناک لڑائی میں جنگی خدمات انجام دیں ۔ حضرت اسماء؅علم وفضل کے اعتبار سے بھی بڑا درجہ رکھتی تھیں ۔آپ؅ سے چھپن احادیث مروی ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں