رات کے تیسرے پہر کا آغاز ہو چکا تھا۔لیکن نیند ابھی بھی اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔اس نے بازو کو آنکھوں پر رکھتے ہوئے ایک بار پھر سے سونے کی کوشش کی اور کچھ وقت کی تگ ودو کے بعد کامیاب بھی ہو گئی۔
الماس اور عمار اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے، ظہیر احمد آرمی کے محکمہ میں آفیسر تھے ۔جو اب ریٹائر ہو کر لاہور شفٹ ہو چکے تھے ۔جبکہ نائمہ کو گھریلو ذمہ داریوں سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی۔لیکن شوہر کے ساتھ جاب کی وجہ سے انھوں نے بھی شہر ، شہر سفر کیا تھا۔
عمار میڈیکل کا سٹوڈنٹ تھا۔جبکہ الماس کا یونیورسٹی میں آخری سال چل رہا تھا۔
”تم دونوں چھٹی والے دن ہمیشہ گھوڑے گدھے بیچ کر دوپہر تک سوئے رہتے ہو، جیسے دنیا میں واحد اور آخری کام کرنے کے لیے یہ ہی باقی ہے نائمہ نے ایک پھر سے انھیں جگاتے ہوئے دور سے ہی ہانک لگائی ۔“
لیکن وہ دونوں بدستور یوں ہی لیٹے رہے ۔
کچھ منٹوں بعد عمار نے کمبل کے ایک سرے کو ترچھا کرتے ہوئے اپنا منہ باہر نکالا اور اپنی بتیسی کا دیدار کرواتے ہوئے کہا۔
”اماں جو مزہ آپ کی ڈانٹ سننے میں ہے وہ اور کہیں نہیں ، اسی لیے میں بھی سستی سے لیٹا رہتا ہوں۔صر اتوار کا ہی تو دن ہوتا ہے، باقی پورا ہفتہ تو بھاگتے دوڑتے ہی گزر جاتا ہے صبح کے نکلے شام کو گھر واپس لوٹتے ہیں۔“
نائمہ اس کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے دوبارہ سے کچن کی جانب پلٹ گئیں۔
ناشتہ کافی نوک جھونک میں کھایا گیا خوب خوش گپیاں لگائی گئیں، اور پھر سب اپنے اپنے کاموں میں الجھ کر مصروف ہو گئے۔
دو سال پہلے الماس کا اپنے خالہ زاد جنید سے نکاح کیا گیا تھا۔جن کی فیملی انگلینڈ میں مستقل سیٹل تھی ۔دونوں خاندانوں میں خاصی محبت اور پیار تھا اسی لیے سب ہی اس نئے رشتے اور تعلق سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔
پہلا ایک سال سب اچھا رہا دونوں خاندانوں میں وہی محبت اور پیار قائم رہا ۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ گرمجوشی کم ہوتی چلی گئی اور پھر بالکل ہی ختم ہو گی۔ تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی پہل جنید اور اس کے گھر والوں کی جانب سے ہی کی گئی تھی۔
الماس اور اس کے گھر والے کڑوے گھونٹ پی کر رہ گئے۔
اور اپنی بیٹی کے اچھے نصیب کی دعا کرنے لگے۔
اس لا تعلقی کے بعد الماس بھی بجھی بجھی سی رہنے لگی، اسی لیے گھر والے اسے ہر وقت کسی نہ کسی کام میں الجھائے رکھتے۔
یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں بیٹھے ہوئے اسے تقریباً آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا لیکن علینہ کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا۔بالآخر وہ جیسے ہی اکتا کر جانے لگی سامنے سے ہی علینہ چہکتی اور مسکراتی ہوئی آ رہی تھی ۔
”یار الماس تمھیں زیادہ انتظار کرنا پڑا بس وہ رستے میں مجھے شہروز مل گیا تھا اسے نوٹس چاہیے تھے تو وہ اسے کاپی کروا کر دیے ہیں اور اب فوراً تمھارے پاس آ پہنچی ہوں ،علینہ نے اپنے خوبصورت چہرے پر معصومیت سجاتے ہوئے کہا۔
اس سے پہلے کہ الماس اسے کچھ کہتی، اس کی نظر ٹیبل کے دوسرے کونے پر جا پڑی جہاں کوئی سرخ اور سفید پھولوں کا بکے رکھ کر جا چکا تھا۔
وہ اردگرد نظر دوڑانے لگی لیکن دور دور تک اسے ایسا کوئی شخص نظر نہیں آیا ، ہر کوئی اپنی مصروفیت میں الجھا ہوا تھا۔ہمیشہ کی طرح اسے آج بھی یہ پتا نہیں چلا کہ یہ پھول یہاں کون رکھ کر گیا ہے اور اسے کس نے بھجوائے ہیں۔اس نے بکے اٹھاتے ہوئے پھولوں کی تازگی اور نرمی کو محسوس کیا ، اور پھولوں کے بیچ میں سے کارڈ کو اٹھاتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اپنا نام پڑھا۔
جس پر خوبصورت لکھائی سے ”For my love Almas“
لکھا ہوا تھا۔
”الماس مجھے تو لگتا ہے کوئی تم پر جی جان سے مر مٹا ہے ، جو روز اتنے مہنگے پھول تمھاری خدمت میں پیش کرتا ہے علینہ نے اسے بازو پر چٹکی کاٹتے ہوئے کہا۔“
”بکواس بند کرو تم ، اچھے سے جانتی ہو تم میرا نکاح ہو چکا ہوا ہے یہ جو کوئی بھی مجنوں ہے خود ہی رک جائے گا،اس نے آنکھیں چراتے ہوئے کہا۔“
”ہاں میں اچھے سے جانتی ہوں تمھارا نکاح ہو چکا ہوا ہے ، جس کے بعد جنید نے کبھی مڑ کر حال بھی نہیں پوچھا ، اور تم اس کے نام کی مالا گلے میں لٹکا کر ابھی تک بیٹھی ہو،علینہ نے چڑتے ہوئے کہا۔“
مہینہ پہلے یہ پھولوں والا سلسہ شروع ہوا تھا۔وہ جہاں بھی جاتی پھولوں کا بکے اس تک پہنچ جاتا تھا ۔کبھی اس کی گاڑی میں ، تو کبھی ہر تیسرے دن صبح کے وقت ان کے گیٹ سے اندر کی جانب، اور کبھی یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں، یہ پھول تو جیسے اس کے تعاقب میں تھے۔ پہلے پہل تو اسے برا محسوس ہوتا تھا ،لیکن آہستہ آہستہ روزانہ وہ بھی پھولوں کا انتظار کرنے لگی۔وقت گزرتا گیا اور اس کے اندر پھول دینے والے کو دیکھنا کا شوق اور تحبس بڑھتا چلا گیا۔
”الماس! کیا تو نے پھولوں کی دکان کھولنی ہے جو روز اتنے پھول منگواتی ہے، نائمہ نے کورئیر والے سے پھول پکڑتے ہوئے اسے ادھر سے ہی آواز لگائی ۔“
”امی آپ کو پتا تو ہے مجھے اپنے کمرے میں پھول سجانے کا کتنا شوق ہے۔ اسی لیے میں منگواتی رہتی ہوں۔“ وہ نائمہ سے پھولوں کا بکے لے کر تیزی سے اندر کی جانب بھاگ گئی۔ روم میں جا کر جیسے ہی اس نے پھولوں کے بکے کو کھولا سامنے ہی اسے کارڈ پڑا نظر آیا ، لیکن آج اس کارڈ پر کچھ اور بھی لکھا ہوا تھا۔
اور وہ تھا گیارہ ہندسوں کا فون نمبر ، کتنی ہی دیر وہ خالی خالی نگاہوں سے اسے تکتی رہی اور پھر بے دلی سے ایک طرف رکھ دیا ۔
پچھلے کچھ دنوں سے ظہیر احمد خلع کا سوچ رہے تھے ۔کیونکہ جنید اور اس کے گھر والوں کا کچھ اتا پتہ نہیں تھا۔
اسی لیے وہ بیرون ملک ڈاک کے ذریعے خلع بھجوانے کا سوچ رہے تھے ۔
جبکہ الماس دو کشتیوں کی سوار ہو چکی تھی، جنید سے اسے محبت تھی لیکن کوئی رابطہ نہیں تھا اور سب گھر والے اسے فرار ہونا ہی قرار دے رہے تھے ۔
جبکہ دوسرا شخص جو اسے روز پھول بھیجتا تھا اسے وہ جانتی تک نہیں تھی۔اس کے متعلق محبت نہ سہی لیکن دل میں ایک نرم گوشہ ضرور پیدا ہو چکا تھا۔
آہستہ آہستہ ان دونوں کی فون پر بات ہونے لگی لیکن اس لڑکے نے اپنے متعلق اسے کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔وہ جب بھی تصویر مانگتی تھی اس کا ایک ہی جواب ہوتا تھا ہم دونوں جلد ہی ملیں گے تم پھر مجھے تسلی سے دیکھ لینا ، اور یہ سن کر وہ ہر بار ہی خاموش ہو جاتی۔
دن بدن دونوں ایک دوسرے کی محبت میں جکڑتے چلے گئے ، بالآخر ملنے کا وقت اور دن طے پا گیا ، الماس مقررہ وقت پر جناح پارک پہنچ گئی ،اور کشادہ روش پر چلتے ہوئے اس کا انتظار کرنے لگی ۔
جس کا اسے نہ ہی نام معلوم تھا اور نہ ہی اس نے دیکھا تھا ، لیکن وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو چکی تھی ۔
چند لمحوں کے بعد وہی خوبصورت گلابوں کی مہک اسے اپنے اردگرد محسوس ہونے لگی، لیکن یہ سب ویسا نہیں تھا جیسا اس نے سوچا تھا یہ کچھ اور تھا ، جنید اس کے سامنے دوزانوں ہو کر بیٹھا تھا ، اور اپنے گزشتہ رویے کی معافی مانگ رہا تھا،اور اسے بتا رہا تھا کہ وہ اور اس کی فیملی انگلینڈ میں کسی بہت بڑی مصیبت میں پھنس گئے تھے اسی لیے سارے رابطے منقطع ہو گئے،ایک مہینہ پہلے جب وہ پاکستان واپس آیا تو سب سے پہلا خیال جو ذہن میں آیا وہ تم تھی الماس، اسی لیے میں نے سوچا میں تمھیں کچھ تحبس میں مبتلا کروں ، تو میں نے تمھیں روازنہ کسی نہ کسی کے ہاتھ پھول بھجوانا شروع کر دیے ، اور پھر ہماری بات ہونے لگی میں نے اپنا نام اس لیے نہیں بتایا کہ کہیں تم پہچان نہ لو میں تمھیں سرپرائز دینا چاہتا تھا ، تاکہ تمھارے چہرے پر آئی خوشی کے رنگوں کو دیکھ سکوں ، الماس کے آنسوؤں کو انگلی کے پوروں سے صاف کرتے ہوئے وہ دھیمے اور خوبصورت لہجے میں اسے بتا رہا تھا ۔دیکھو اب دکھوں کا موسم ختم ہو چکا ہے ، میں خالہ اور خالو کو بھی منا لوں گا امی بھی نیکسٹ ویک کی فلائٹ سے پاکستان واپس آ رہی ہیں ، اور ہماری شادی کی ڈیتھ فکس کریں گی، جس کے بعد ہم دونوں ایک سنگ ساری زندگی گزار دیں گے، الماس کے ماتھے پر آئے بالوں کو نرمی سے پیچھے ہٹاتے ہوئے اس نے کہا اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس دیے۔
ختم شد