73

افسانہ/ملال/از قلم/ نورِ بدر

وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ یہ ایک سیٹی نما شور تھا جس سے اسے اپنے دماغ میں ٹیسیں اٹھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ مکمل ہوش میں آتے آتے اس نے لا شعوری طور پر اپنے نتھنوں کو سکیڑا۔ یہ کوئی ناگوار مگر بہت مانوس سی بدبو تھی۔ اپنی آنکھیں دائیں جانب گھماتے ہوئے اس نے اس بدبو کو پہچاننے کی کوشش کی لیکن عین اسی لمحے اس کی بائیں جانب ابھرنے والی آہٹ نے اس کی توجہ بٹا دی۔ وہ سرعت سے بائیں جانب مڑا ہی تھا کہ سامنے کے منظر کو دیکھ کر اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ وہ یہاں بھی آ پہنچا تھا۔ مارے خوف کے اس نے اپنا لحاف اتار پھینکا اور پائنتی کی طرف سمٹنے لگا مگر وہ بتدریج اسی کی طرف بڑھ رہا تھا؛ پہلے سے کہیں طاقتور اور کئی گنا خوفناک۔ اس کے منہ سے رال ٹپک رہی تھی اور سامنے کے بڑے بڑے دانت خون میں سنے ہوئے تھے۔ اسے لگا اس کا دل ایک سو تیس کی رفتار پکڑ چکا ہے اور اس کے سینے پر دستک دے رہا ہے۔ ماتھے پر آئی پسینے کی ننھی ننھی بوندوں کو پونچھنے کی اسے فرصت نہیں تھی اسے تو بس کسی طرح اپنے خوف سے پیچھا چھڑانا تھا جو آج بالآخر مجسم شکل اختیار کر چکا تھا اور اسے نگل لینے کو تیار تھا۔ تیز ہوتی ہوئی سماعتوں کے ساتھ اسے لگا اس کے اردگرد دنیا کی ہر چیز رک چکی ہے سوائے اس خوفناک وجود کے جو ہولے ہولے اس کی جانب بڑھ رہا تھا اور جس کے سامنے کے دانتوں سے خون کے قطرے ٹپ ٹپ بہنے لگے تھے۔ رات کے اس پہر کمرے کے فرش پر گرتی ہوئی خون کی بوندوں کی آواز ایسی بلند محسوس ہو رہی تھی جیسے کسی گھنٹہ گھر کا گھڑیال رات کی خاموشی میں ایک بجاتا ہے۔ اپنے خوفناک دانتوں سے بتیس بوندیں خون کی ٹپکانے کے بعد اس عفریت نے زور سے اپنا سر جھٹکا تو کمرے کا منظر اور بھی خوفناک ہو چکا تھا؛ ہر چیز خون میں ڈوبی ہوئی تھی یہاں تک کہ دیواروں سے بھی خون کسی آبشار کی طرح بہہ نکلا تھا۔ اب جا کر اس کے دماغ نے اس مانوس بدبو کے احساس کو پہچانا… تو یہ خون کی بو تھی؟
وہ گھبرا کر اپنے بستر سے اترا مگر یہ کیا؟ اس کے کمرے کا فرش غائب ہو چکا تھا اور وہاں خون کا تالاب نمودار ہو چکا تھا جس میں کچھ لوگ ڈوب رہے تھے اور خود کو بچانے کے لیے اسے پکار رہے تھے۔ اسے احساس ہوا وہ ان چہروں کو پہنچانتا ہے مگر کیسے؟ اس سوال کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ مدد کے لیے بلند ہوتے ہاتھ اس کی جانب بڑھ رہے تھے ایسے میں دو چار ہاتھ اس کی ٹانگوں پر پڑے اور وہ بے اختیار خون کے اس تالاب میں ڈوبتا چلا گیا۔ اس نے ہر ممکن اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کی مگر ایسا نہ کر سکا۔ خون کی بو انتہائی تیز اور کریہہ تھی۔ جیسے ہی خون اس کے نتھنوں میں گیا اس نے غوطہ کھایا اور ایک آخری کوشش کر کے بمشکل سانس لیتے ہوئے آنکھیں کھول دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ کھلتے ہی اس نے سائیڈ لیمپ روشن کیا اور پاس پڑے ٹیبل کلاک پر وقت دیکھا؛ رات کا ایک بج رہا تھا۔ شدید پیاس سے اس کا گلا خشک ہو رہا تھا اور ناک میں سنسناہٹ سی محسوس ہو رہی تھی ۔ اس کا چہرہ پسینے سے تر تھا۔ میز پر رکھے گلاس کا ڈھکن اٹھا کر اس نے پانی پیا اور گلاس واپس رکھتے ہوئے اس کی نظر میز پر ٹھہر گئی۔ یہ ایک گولڈ میڈل تھا جو تین دن پہلے اسے بہترین کارکردگی پر دیا گیا تھا۔
”باز کی نظر اور چیتے کی پھرتی پائی ہے تم نے۔“ اسے اپنے افسر کی کہی بات یاد آئی۔
”تم ایک بہترین سنائپر ہو۔ مجھے فخر ہے تم پر۔“ اس شاندار تقریب میں بھرپور تالیوں کی گونج میں اسے میڈل پہناتے ہوئے انہوں نے کہا تھا اور وہ ان کی بات پر بمشکل مسکرایا تھا۔
”بائی دا وے اب تک کتنوں کو ٹھکانے لگا چکے ہو؟“ اب کے انہوں نے سرگوشی میں پوچھا۔
”بتیس سر!“ اسے اپنی آواز کسی کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ یکایک اس کے ہاتھ میں لرزش سی ہوئی اور اس کا میڈل زمین پر جا گرا۔ اس نے دیکھا اس کے ہاتھ خون آلود ہو چکے تھے۔ خوف اور دہشت سے اس نے گہری سانس لینے کی کوشش کی مگر وہ اپنی ناک سے بہتے خون کی وجہ سے ایسا نہ کر سکا اور پورے کمرے میں خون کی بو پھیل گئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں