82

افسانہ/چالوں پر چالیں چلنا/افسانہ نگار/بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد

کھڑکی کے شیشے پر پڑی گرد کے باعث باہر کے مناظر دُھندلے سے دیکھائی دے رہے تھے۔ چھوٹے نے ٹیبل پر رکھا کپڑا اٹھایا اور شیشہ رگڑنے لگا مگر اب کی بار شیشہ اور زیادہ دھندلا ہوگیا۔ کرسی پر بیٹھا سگریٹ کے کش پہ کش لگاتا منور قہقہہ مار کر ہنسنے لگا، سہراب نے منور کو گھورتے ہوئے چھوٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”ابے! چھوڑ دے تجھ سے نہیں ہوگا۔ جا فیقے کے ہوٹل سے دو کپ گرما گرم چائے لے کر آ۔ اور سن دروازہ بند کر کے جانا۔“
”منور! تم نے سرور برادرز کے پاس اپنا آدمی بھیجا تھا، کہو کیا خبر لایا؟“ سہراب نے آفس کی آرام دہ کرسی کی پشت پر سر رکھتے ہوئے اپنے جگری یار اور بزنس پارٹنر سے پوچھا۔
منور نے سگریٹ کا لمبا سا کش لے کر دھواں چھوڑتے ہوئے کہا: ”اماں یار! سرور برادرز بڑے ہوشیار ہیں، میرے آدمیوں کے جھانسے میں نہیں آئے۔ کہا کہ ہمیں کسی کے شیئرز کی ضرورت نہیں ہے۔ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کر رہے ہیں۔ اس کے لیے ہم چار بھائی ہی کافی ہیں۔ پانچویں سوار کی گنجائش نہیں۔“
سہراب نے پہلو بدلا اور کرسی پر سیدھا بیٹھتے ہوئے ٹیبل پر رکھے پیپر ویٹ کو گول گول گھماتے ہوئے پیشہ ورانہ سفاکی سے کہنے لگا: ”دیکھ منور! سرور برادرز کی چھوٹی سی فیکٹری بہت اونچی اڑان اڑ رہی ہے۔ ہماری پچھلی میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ ہر بڑے کاروبار میں اپنا حصہ ہو یا پھر اسے اپنی تحویل میں لے لیا جائے۔ سو نج کاری کی پالیسی سے بھرپور فائدہ اٹھاؤ، پلان نمبر 11 پر عمل درآمد کرو۔“
منور نے سگریٹ کا آخری کش لگایا اور ایش ٹرے میں راکھ چھڑکتے ہوئے بولا: ”یہ ترکیب بھی آزما کر دیکھ لی ہے۔ بڑے دین دار بنتے ہیں۔ ان کی تو اولاد بھی قابو میں نہیں آ رہی ہے۔ خیر میں نے بھی ان میں سے دو کو چارہ ڈالا ہوا ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ شکار کب جال میں آ پھنستا ہے۔ چھوڑنا تو بالکل نہیں ہے۔ اچھا اب تم بتاؤ یار! تم نے چوہدری سنز سے معاملہ طے کرلیا؟“
سہراب نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور بڑے اسٹائل سے بولا: ”یار! چوہدری بھی کیا اڑیل بھینسا تھا۔ کسی طور ہاتھ نہ آتا تھا۔ اب دیکھو وہی چوہدری پچاس لاکھ کی زمین میرے نومولود پوتے کو گفٹ کرنے کے لیے مرا جا رہا ہے۔ ارے ہم نے اس بھینسے کی رسی ایسے پکڑی تھی کہ تباہی وبربادی، رسوائی و بدنامی کے سوا اس کے پاس کچھ نہیں بچتا
اب وہ پوری طرح ہماری مٹھی میں ہے۔“
”ارے واہ استاد! تم نے اس پر کون سی ترکیب آزمائی تھی؟“ منور نے آنکھ مارتے ہوئے پوچھا، تو سہراب کالر جھاڑتے ہوئے بولا: ”ترکیب نمبر 9 کے مطابق پہلے اغواء اس کے بعد نونی اور سویٹی کے ساتھ اس کی قابلِ اعتراض حالت میں وڈیو بنوا دی گئی اس طرح ہمارے لیے اسے عورت پرست اور شرابی ثابت کرنا آسان تھا، کہ یہ شخص دولت کے نشے میں چُور ہو کر شراب وشباب کے لیے حصول کے لیے کس قدر بے صبرا ہے۔“
سہراب لمحہ بھر کو ٹھہرا پھر شاطرانہ عیاری سے بولا: ”میں نے اس سے پہلے شاہ خاور کی پانچ کروڑ کی جائیداد اسی طریقے سے قبضہ میں کی تھی۔“
منور پھڑک اٹھا۔
”واہ واہ مان گئے استاد! تم تو استادوں کے بھی استاد ہو۔ تمہاری شاگردی میں شامل ہونا باعثِ فخر ہے۔“
سہراب گھڑی دیکھتے ہوئے تشویش سے بولا: مکیش کو اب تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔ ایک جماعت پر ترکیب نمبر 12 لگائی ہے۔ اس طرح طلباء کی دو منظم و متحرک تنظیمیں آپس میں ٹکرانے کو تیار ہیں۔“
منور داخلی دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے بولا: ”خوب بھئی بہت خوب۔ ہمارے پاس ایک سے بڑھ کر ایک شاطر دماغ موجود ہے۔ پھر کیوں نہ پورے ملک کی دولت ہمارے قدموں میں ڈھیر ہو۔ میں آج کے بینکوں کے لُوٹے ہوئے مال کی تفصیل لینے دلاور کے پاس جا رہا ہوں، رات شبانہ کو ہاسٹل چھوڑنے لاہور جاؤں گا۔ جلد ملتے ہیں۔“

”ہمارا مشن یاد رہے! ہر طرف دہشت و انتشار پھیلانا ہے۔ اپنا آپ ظاہر کیے بغیر۔”

آرام دہ بستر ، ریشمی پردوں، ای سی کی خنکی نے کمرے کے ماحول کو خوابناک بنا دیا تھا۔ اس کے باوجود اس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔
رات کے تین بجے ایمرجنسی فون بجنے لگا۔ سہراب نیند کی گولی کھا کر انٹا غفیل سویا پڑا تھا۔ بالآخر سہراب کے بڑے بیٹے نے مسلسل بجنے والی ایمرجنسی کال ریسیو کر لی تھی۔ ”ایس جے شوگر مل“ شعلوں میں زبردست بم دھماکہ ہوا ہے۔ طاقتور بم دھماکے نے آفس اور مشینری تباہ و برباد کر دیے۔“
بیٹے نے خواب گاہ کا دروازہ پیٹ ڈالا۔ مگر ساؤنڈ پروف دروازے پر کوئی دھک نہیں گونجی۔ ”ایس جے شوگر مل“ بری طرح شعلوں میں گھرا ہوا تھا۔ آگ بجھانے والی گاڑیاں آگ بجھانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھیں۔ اندر جانے کا کوئی راستہ بچا نہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا۔ ایس جے شوگر مل ملبے کا ڈھیر بن کر رہ گئی۔
”ارے یار سہراب! اب بس بھی کر دے۔ یہ نقصان تمہارے لیے بہت بڑا نقصان نہیں۔ یہ کیا مجنوں والا حلیہ بنا رکھا ہے۔ ایسی کئی ملیں اور فیکٹریاں میرے یار پر نچھاور ہونے کو تیار ہیں۔ چِل(cill) کرو پیارے چِل یہ نقصان دوگنا حاصل کرنے کے لیے۔۔۔۔۔۔!“
ایک ہفتے بعد منور سہراب سے مل کر اس کی حالت دیکھ کر اسے تسلیاں دے رہا تھا۔
سہراب نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ اور افسردگی سے بولا: ”ہاں یار! مال تو بہت مل جائے گا حکومت سے بھی اور بھولی بھالی عوام کی ہمدردیوں کے ساتھ۔ آہ لیکن۔۔۔ میرے چند خاص ہیرے جو مل کے اندر تہہ خانے کے مال خانے میں موجود تھے وہ جل کر راکھ ہوگئے وہ کہاں سے لاؤں گا؟
”ہیرے؟“ منور چونکا اور بے تابی بولا: ”کون؟ کون تھا، کس کی بات کر رہے ہو؟“
سہراب کی نگاہیں مسلسل زمین پر گڑی ہوئی تھیں وہ دل گرفتگی سے بولا: ”دلاور اور رستم نے ایک بڑی موٹی آسامی کو پھنسانے کا پلان بنایا تھا۔ تقریباً پچاس افراد تہہ خانے کے ہال میں جمع تھے۔ ان میں سے سات خاص آدمی تھے، سب تباہ ہوگئے۔ تہہ خانے میں ایک نہیں کئی بم رکھے گئے تھے، جلی ہوئی ایسی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن کی کوئی شناخت باقی نہیں رہی۔ افسوس! ہماری سرگرمیاں کھٹائی میں پڑ گئیں، نئے آدمی پھر اکٹھا کرنے ہوں گے۔“
”اچھا میں یہ پوچھنے آیا تھا کہ آج ایک ہفتہ ہوگیا، شہزاد اور یاور بھی گھر نہیں پہنچے ، کچھ ان کے متعلق خبر ہے؟“ منور نے غمزدہ لہجے میں سوال کیا۔
اب کے سہراب بری طرح سٹپٹایا۔ ہچکچاتے ہوئے ، اٹک اٹک کر کہنے لگا: ”وہ دونوں دلاور کے ساتھ تھے۔“ منور کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ دلاور اور سھراب بھائی تھے۔ بالکل اسی طرح ، شہزاد، یاور اور منور تینوں سگے بھائی تھے۔ سہراب کے بارہا اصرار پر انہیں کالج و جاب سے ہٹا کر اپنے دھندے پر لگا دیا گیا تھا۔ دولت کی چکاچوند نے انجام سے بے خبر جو کر دیا تھا۔ منور مردہ قدموں سے شہزاد گھر کی طرف چل پڑا جہاں سات دنوں سے شہزاد کی چار ننھی شہزادیاں باپ کی گھر واپسی کی راہ تَک رہی تھیں۔ ماں کی گھٹی گھٹی چیخیں جواں جہان یاور کو آواز دے رہی تھیں۔ جو شام کو گھر لوٹ آنے کا کہہ کر گیا تھا۔ منور بھربھری ریت کی مانند ڈھتا چلا گیا۔ ماں جائیوں کا عبرت ناک انجام اس کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی تھا۔ حلال کمائی کمانے والوں کو حرام کی راہ ڈالنے والا اپنے سر پر خاک ڈال کر بلک بلک کر رو پڑا۔
رسی جل گئی پر بل نہ گیا سہراب جواں سال بھائی کے ساتھ اپنے نایاب ہیرے اور سالوں کی کمائی دولت گنوانے کے بعد تن دہی سے نئے سرے سے عیاری و مکاری کی نئی بساط بچھانے میں مصروفِ عمل تھا۔
وہ چالوں پر چالیں چلے جا رہا تھا اس بات سے بے خبر کہ زبردست چال چلنے والے نے ایک زور دار جھٹکا دینے کے لیے اس کی رسی دراز کر کے ڈھیلی چھوڑ دی تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں