82

اقبال کیسے اقبا ل بن گیا/تحریر/ اعجاز خان میو

کہتے ہیں مولوی محمد ابراہیم ناگی سیشن جج نے خواب میں دیکھا کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ان کے پاس آئے اور کہا : ’’ ہمارے ایک قلندر کا مقدمہ کل تمہار سامنے پیش ہو گا ، اسے رہا کردینا ۔ ‘‘ جج صاحب کی عدالت میں اگلے روز پولیس نے ایک شخص کو پیش کیا ،جسے آواراہ گردی کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ ملزم نے جج سے پو چھا : ’’ کیا ہمارا قلندر آپ سے ملا تھا ؟ ‘‘ جج صاحب کو اپنا خواب یاد آگیا ۔ انہوں نے اس ملزم ضمانت کا انتظام کروایا اور اسے پیشی تاریخ دے کر کہا : ’’ اپنے قلندر کو بعد از سلام میرا یہ پیغام پہنچادینا کہ مجھے اپنے وطن بلائے ۔‘‘ اگلی تاریخ پر ملزم کو بری کر دیا گیا ۔ رہائی کے بعد ملزم نے جج صاحب سے کہا : ’’ آپ کا کام ہو جا ئے گا ۔‘‘ چنانچہ تھوڑے دنوں بعد جج صاحب کا تبادلہ اقبال کے وطن سیالکوٹ میں ہو گیا ۔ پیر کرم شاہ الازہری بھیرہ شریف والے ( سابق چیئر مین رویت ہلال کمیٹی ) فر ماتے ہیں : ’’ مجھے ایک رات خواب میں علامہ اقبال ؒ کی والدہ ماجدہ کی زیارت ہوئی ۔ میں نے ان سے پوچھا : ’’ بزرگ خاتون ! یہ تو بتائیں ’’ اقبال : اقبال کیسے بن گیا ۔‘‘ انہوں نے فرمایا : ’’ اقبا ل کو جس چیز کا علم نہیں ہو تا تھاوہ اس کی جان کاری کے لئے پوچھنے میں جھجھک نہیں محسوس کرتا تھا ،جاننے کے اس ذوق نے اقبال کو اقبال بنادیا ۔‘‘ علامہ اقبال ؒ جن دنوں گورنمنٹ کالج میں پرو فیسر تھے تب مولوی حاکم علی مشن کالج میں استادتھے ۔ علی بخش مولوی حاکم علی کے ہاں ملازم تھا ۔ ایک روز علی بخش مولوی صاحب کا خط لے کر علامہ اقبال ؒ کے پاس آیا ۔ علامہ اقبال ؒ نے علی بخش سے کہا : ’’ تم میرے پاس آجائو ۔‘‘ علی بخش نے کہا : ’’ میں مولوی حاکم علی کے پاس ٹھیک ہوں ۔‘‘ علامہ صاحب نے اصرار کیا تو علی بخش نے اپنے وطن سے اپنے بھائی کو بلوایا ۔ اسے مولوی حاکم علی کے پاس ملازم رکھوا کے خود علامہ اقبال ؒکے پاس آگیا اور پھر ساری عمر علامہ صاحب کے ساتھ رہے ۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ جب ا نارکلی میں رہتے تھے ۔ ایک رات علامہ اقبال ؒ نے سوئے ہوئے علی بخش کو جگا یا ۔ علی بخش نے دیکھا ایک نورانی شکل کے بزرگ صوفے پر بیٹھے ہیں جبکہ اقبال قالین پر بیٹھے ان کی ٹانگیں دبا رہے ہیں ۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے علی بخش سے کہا کہ بازار سے لسی کے تین گلاس لائو ۔ علی بخش حکم کی تعمیل میںیہ سوچتے ہوئے گھر سے نکلا کہ آدھی رات ہے ،اس وقت لسی کہاں سے ملے گی ۔ گھر سے نکلتے ہی علی بخش کو ایک دودھ دہی کی دوکان دکھائی دی ۔ علی بخش نے دکاندار سے لسی کے تین گلاس بنوائے ۔ جب قیمت دینا چاہی تو د وکاندار نے کہا رہنے دو ہمارا علامہ اقبال ؒسے حساب چلتا ہے ۔علی بخش لسی لے کر آیا ۔ صوفے پر بیٹھے بزرگ نے لسی کے دو گلاس پیئے جبکہ تیسرا گلاس علامہ اقبال ؒ کو پینے کا حکم دیا ۔ کچھ دیر بعد علامہ صاحب نے علی بخش کو دوبارہ بلایا اور کہا کہ وہ بزرگ مہمان کو رخصت کر آئے ۔ علی بخش بخش انہیں چھوڑنے گلی تک آیا ۔ دروازے سے نکلتے ہی وہ بزرگ غائب ہو گئے جبکہ گھرسے باہر دودھ دہی کی وہ دوکان تھی نہ دوکان دار تھا ۔ علی بخش کو حیران و پریشاں دیکھ کر علامہ صاحب نے فرمایا : ’’ وہ بزرگ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ تھے جبکہ لسی بنانے والے میزبان حضرت داتا گنج بخش دوکان دار بنے ہوئے تھے ۔مگر یہ واقعہ میری زندگی میں کسی نہ بتانا ۔ سید مبارک علی شاہ گیلانی سجادہ نشین منڈیر سیداں ( سیالکوٹ ) اپنے بزرگ سید احمد حسن گیلانی کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان کا فیصلہ حضور پاک ﷺ کے دربار میں ہوا ۔ حضور پاک ﷺ کے دربار میں پاکستان کا کیس حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کیا ۔ جس پر حضور پاک ﷺ نے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو پاکستان بنانے کا حکم دیا تو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے عاجزی درخواست کی میں پیرانہ سالی اور بیماری کے باعث اس ذمہ داری سے عہدہ براہ ہونے سے عاجز ہوں ،آپ یہ ذمہ داری محمد علی جناح کو تفویض فر مادیں ۔ جس پر حضور پاک ﷺ نے محمد علی جنا ح کو پاکستان بنانے کی ذمہ داری تفویض فر مادی ۔ یاد رہے محمد علی جناح ان دنوں مایوس ہو کر لندن چلے گئے تھے ۔ حضور پاک ﷺ کے حکم پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں خط لکھا اور واپس آکر قوم کی قیادت سنبھالنے کا حکم نبوی ﷺ پہنچایا ۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے خواب میں علامہ اقبال ؒ ، قائد اعظم محمد علی جنا ح اور سلطان ٹیپو کو جنت میں جلوہ افروز دیکھا ،فرشتے ان تینوں پر خدام بنے اپنے پروں کا سایہ کئے کھڑے ہیں ۔ جب سردار عبدالر ب نشتر گور نر پنجاب تھے تو نماز جمعہ مسجد حضرت شاہ غوث میں پڑھتے تھے ۔ ایک دفعہ اس مسجد کے خطیب مولوی سلطان محمد کی زبان بندی کا حکم دے دیا ۔ مولوی صاحب بڑے پریشان ہوئے ۔ آخر کا ر علامہ اقبال ؒ کے مزار پر گئے اور وہاں مراقبہ کیا ۔ جس میں انہیں علامہ اقبال ؒ کے روحانی مقام سے آگاہی حاصل ہوئی ۔ جس انہوں نے رو رو کر اعلان کیا کہ ’’ علامہ اقبال ؒ کی قبر زندہ ہے، ان کا فیضان جاری ہے ۔‘‘ سردار عبدالرب نشتر کو جب مولوی صاحب کے کشف کا پتہ چلا تو انہوں نے ان کی زبان بندی کے احکام ختم کر دئیے۔ سراج نظامی ایڈیٹر سیارہ ڈائجسٹ بیان کرتے ہیں کہ ایک مولانا تھے جو ہمیشہ انہیں کسی پیر کی بیعت کرنے پر مجبور کرتے تھے ۔ایک بار اتوار کے روز کسی پیر صاحب کی بیعت کرنے کا پرو گرام طے ہو گیا ۔ اس سے ایک قبل سراج نظامی کی خواب میں علامہ اقبا ل ؒ سے ملاقات ہوئی ۔ علامہ صاحب ایک شکستہ مسجد میں چٹائی پر فرو کش تھے جبکہ سراج نظامی مذکورہ مولوی صاحب کے ہمراہ وہاں سے گزر رہے ہوتے ہیں ۔ علامہ صاحب نے سراج نظامی کو بلایا اور فرمایا : ’’ تمہیں کسی کا مرید ہو نے کی ضرورت نہیں ۔‘‘ سراج نظامی یہ سن کر علامہ صاحب کے پاس بیٹھ گئے جبکہ مولانا چلے گئے ۔ بعد علامہ صاحب سراج نظامی کولے کر ایک کمرے میں گئے جس میں بے شمار شیشے کی الماریاں کتابوں سے بھری پڑی تھیں۔ علامہ صاحب نے سراج نظامی کو ایک کتاب دکھائی اور کہا یہ کتاب پڑھا کرو ،تمہیں کسی پیر کی ضرورت نہیں۔ وہ کتاب قرآن مجید تھی۔ ٭٭٭٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں