109

اقوام متحدہ کا اسمارٹ فونز پر پابندی کا مطالبہ تحریر/ رفیع صحراٸی

اقوامِ متحدہ کا اسمارٹ فونز پر پابندی کا مطالبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیجٸے جناب ! خبر یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے دنیا بھر کے اسکولوں میں اسمارٹ فونز کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں بین الاقوامی ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوٸے بتایا گیا کہ اسکولوں اور گھروں میں اسمارٹ فونز، ٹیبلٹس یا لیپ ٹاپس کا بہت زیادہ استعمال طالب علموں کی توجہ بھٹکانے کا باعث بنتا ہے جس کے باعث ان کے سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے اسمارٹ فونز پر پابندی کا یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بہت سے ترقی یافتہ ممالک نے ”درسی کتاب“ کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ وہاں کٸی سال سے ”ای لرننگ سسٹم“ راٸج ہے۔ ہمارے ہاں ابھی اس سسٹم کو راٸج کرنے کے بارے میں صرف سوچا ہی جا رہا ہے۔ شاید کسی غیر ملکی این جی او یا یورپی ملک نے اس سلسلے میں اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کی حامی نہیں بھری۔ ہمارا تعلیمی نظام دہاٸیوں سے ”براٸے فروخت“ ہے اور ہر قیمت ادا کرنے والا پیسہ دے کر من مانی شراٸط کے ساتھ اس میں تبدیلیاں کروا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آٸے روز تجربات کی قربان گاہ پر چڑھا کر تعلیمی نظام کی اسلامی اور قومی شقوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔ بات ہو رہی تھی اسمارٹ فونز پر پابندی کے مطالبے کی۔ اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ نے دنیا بھر کے 200 تعلیمی نظاموں کا تجزیہ پیش کرتے ہوٸے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اب تک ہر 6 میں سے ایک اسکول نے پہلے ہی اسمارٹ فونز کے استعمال پر پابندی عاٸد کر دی ہے۔ یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ہمارے ملک میں پہلے ہی تمام تعلیمی اداروں میں سرکاری طور پر اسمارٹ فونز کے ساتھ ساتھ سادہ فونز کے استعمال پر بھی پابندی عاٸد ہے حتیٰ کے اساتذہ صاحبان بھی دورانِ تدریس فون استعمال نہیں کر سکتے، لیکن عملی طور پر اس پابندی کا وہی حشر ہوتا ہے جو دیگر سرکاری احکامات کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ سیکنڈری کلاسز سے یونیورسٹی سٹوڈنٹس تک 90 فیصد طلبہ کے پاس اسمارٹ فونز موجود ہوتے ہیں۔ اساتذہ میں یہ شرح 99 فیصد ہے. اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں اسمارٹ فونز لے جانے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ اس لٸے کیا ہے کہ بچوں کے سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہو سکے اور وہ آن لائن بدزبانی سے بچ سکیں۔ اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثقافت کے ادارے یونیسکو کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ موبائل فونز کا بہت زیادہ استعمال تعلیمی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔رپورٹ کے مطابق موبائل فونز پر زیادہ وقت گزارنے سے بچوں کے جذباتی استحکام پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لٸے مطالبہ کیا گیا کہ اسکولوں میں اسمارٹ فونز لے جانے پر پابندی عائد کی جائے تاکہ یہ پیغام دیا جاسکے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی انسانی تعلیم کے لیے معاون سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔یونیسکو نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اثرات سے خبردار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس کے سیکھنے اور معاشی افادیت کے حوالے سے مثبت اثرات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہر تبدیلی کو پیشرفت نہیں قرار دیا جا سکتا، ہر نئی چیز ہمیشہ بہتر نہیں ہوتی۔ عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل انقلاب میں متعدد مواقع چھپے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے خطرات پر بھی بات کی جا رہی ہے، ایسی ہی توجہ تعلیم کے شعبے پر بھی مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل Audrey Azoulay نے کہا کہ ”ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھنے کے تجربے کو بہتر بنانے اور طالب علموں و اساتذہ کی بہتری کے لیے ہونا چاہیے، مگر سب سے پہلے سیکھنے والوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، آن لائن رابطے انسانی تعلقات کے متبادل نہیں ہو سکتے“۔ یہ بات سوفیصد حقیقت ہے کہ آن لاٸن رابطے انسانی تعلقات کے متبادل نہیں ہو سکتے۔ فون محض سہولت کے لٸے ایجاد ہوا تھا ہم نے اسے لازمی حیثیت دے دی۔ زیادہ سے زیادہ اس کی حیثیت روزمرہ زندگی کے ایک حصے (Part of Life ) کی ہو سکتی ہے مگر ہم نے اپنی زندگی کو فون کا ایک حصہ بنا دیا ہے۔ عالمی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک کو تعلیمی شعبے میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو مفید بنانے اور اس کے نقصانات سے بچنے کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ہر چیز کی زیادتی بری ہوتی ہے۔ کسی بھی چیز کا استعمال ایک حد تک ہی بہتر ہوتا ہے خواہ وہ جتنی بھی مفید ہو۔ آج انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کا استعمال بے تحاشہ بڑھ گیا ہے۔ موباٸل فون جو صرف کال کرنے یا سننے کے لٸے ایجاد ہوا تھا اب منی کمپیوٹر کا روپ دھار چکا ہے۔ اس نے انٹرنیٹ کا استعمال بے تحاشہ بڑھا دیا ہے۔ کوٸی ایک پیج یا ساٸٹ سرچ کریں تو اس سے ملتے جلتے ناموں کے سینکڑوں پیجز یا ایپس کھل جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے جو اصل کام سے توجہ ہٹا کر غیرمتعلقہ دلچسپیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ یوں یوزر کا نہ صرف ٹاٸم ضاٸع ہوتا ہے بلکہ وہ اصل راستے سے بھٹک کر منزل سے بھی دور چلا جاتا ہے۔ طالب علمی کا زمانہ نوبلوغت اور جوانی کا ہیجانی دور ہوتا ہے۔ اس عمر میں جنسِ مخالف کی طرف طبعی رجحان فطری تقاضہ ہوتا ہے۔ اگر کھلی آزادی اور چھوٹ مل جاٸے تو راستا بھٹکنے کے امکانات کٸی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ یورپ جو انتہاٸی آزاد خیال معاشرہ ہے اس نے بھی حالات کی سنگینی کو بھانپ لیا ہے۔ وہاں طلبہ کے لٸے انٹرنیٹ کا استعمال محدود کرنے کے طریقوں پر سوچ بچار ہو رہی ہے۔ ہمارا پاکستانی کلچر تو سوفیصد اخلاقیات اور مذہبی اقدار پر مشتمل ہے۔ ہمیں بھی صورتِ حال کی سنگینی کا ادراک کرنا ہوگا۔ اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیز میں تعلیمی اوقاتِ کار کے دوران اساتذہ اور طلبہ پر اسمارٹ فونز کے استعمال پر پابندی لگانا ہو گی تاکہ تعلیمی عمل پوری یکسوٸی کے ساتھ جاری رکھا جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں