412

انسانی کیکڑے / تحریر / محمد کاشف قمر

محمد کاشف قمر

کیکڑا ایک آبی جانور ہے جوکہ اپنے زہریلے ڈنگ اورنقصان دہ ہونے کے اعتبار سے تو بہت مشہور ہے لیکن اس کی ایک فطری عادت ایسی ہے جس سے عامۃ الناس تو کیا خواص میں سے بھی اکثر لوگ ناآشنا ہیں۔ وہ فطری عادت یہ ہے کہ جب کبھی کیکڑا سمندر سے باہر ہوتاہے اورواپس سمندر میں جانے کا ارادہ کرلے تو وہ سمندر میں جانے کے لیے خشکی سے سمندر کی جانب ابتدائی سفر توطے کرلیتا ہے لیکن سمندر میں جانے اورمنزل کے حصول سے چندقدم دوری پر اپنی ذات کو ایسا لاچار ومجبور کرکے چھوڑ دیتا ہے لیکن مزیدتھوڑی سی کوشش وسعی کرکےسمندر کے اندر جاکر کامیابی کے قدم نہیں چومتابلکہ ایک ایسی لہر کاانتظارکرنے لگتاہے جس کے سہارے وہ اپنی منزل مقصودیعنی سمندر میں جاپہنچے۔
اب اگر اس کی خوش بختی اس کا ساتھ دیدے اوراس کی زندگی کے کچھ مزید پل باقی ہوں تو وہ سمندر میں اپنی زندگی جیتے ہوئے کامیابی پر فخر کرنے لگتا ہے، لیکن اگر بدقسمتی اس کامقدر ہو جائے تو وہ اس کنارے پر کسی لہر کے سہارے کی تلاش میں بے سدخشکی پر پڑے پڑے درمیانِ سفر میں ہی موت کو گلے لگالیتاہے اورناکامی کے اندھیروں میں ہست سے بود ہوجاتاہے اوراپنی حیات کو بغیر سہارے گزارنے کی خوشی کامزہ نہیں چکھ پاتا۔
یہ تو تھی اصل کیکڑے کی فطرت وعادت!
اب ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اورجائزہ لیں بلکہ جاگتی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیں آپ کو اپنے گردوپیش میں کتنے ہی انسان اس کم ہمتی اوربے بسی کاشکاراصل کیکڑے کے روپ میں نظر آئیں گے جن کی تعداد چند نہیں، سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں یا لاکھوں میں ہوگی جن کو اپنی حیاتِ چندروزہ میں اتفاقات یا صرف آباءواجداد کی شان وشوکت نے دنیا میں جس جگہ لاکر کھڑا کردیا ہے وہ روزِ اول سے وہیں پڑے الٹ پلٹ ہوکر اپنے ہی خول میں کامیابی کے جھنڈے تو گاڑ رہے ہیں لیکن حقیقی محنت سےا یسے تہی دامن ہیں کہ انتظار کرتے ہیں کہ کوئی دوسرافردِ غیر کاسہارا سمندری لہروں کی مانند ان کو ترقی اورکامیابی کے حقیقی سمندر میں لے جائے جب کہ وہ از خودادنی سی آخری کوشش کرلے توحقیقی فتح وکامرانی ،عزت وفخر اورسربلندی کاسمندر ان سے چندقدم ہی دورا ن کامنتظرہے لیکن افسوس کہ وہ انسانی کیکڑے ایک انجان سہارے کے منتظررہتے ہیں جو ان کے گمان کے مطابق ان کو کامیابی سے ہمکنار کردیں جب کہ اس طرح کے خیالات کے بارے میں صاحبِ بصیرت لوگوں کایہ مقولہ مشہورہے کہ ’’ایں خیال ست ومحال ست وجنوں‘‘
کامیابی کے متلاشی ہر فرد کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ انسانی کیکڑے کے خول سے باہر آکرفتح وکامرانی ،کامیابی وشادمانی اور بلند مقام کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد ،محنت ،کوشش اورلگن کو سہارا بنانا چاہیے نہ کہ کسی فردِ غیرپرتمام تربھروسہ کرناچاہیے اصل کامیابی انسان کے اپنے ہی ہنر ،مضبوط قوتِ ارادی اورکام کو تدریجی مراحل میں پایہ تکمیل تک پہنچا کر حاصل ہوسکتی ہے۔ اغیار کے سہارے اوران کی عطاکردہ عنایتیں نہ توپائیدار ہوتی ہیں اورنہ ہی وفادار،کبھی نہ کبھی ہمیں اس موڑ پر تنہاچھوڑکر چلی جاتی ہیں کہ ہم ناکام ہوکرموت کوگلے لگاتے ہوئےدنیاکے سامنے صرف انسانی کیکڑے کی صورت میں ضرب المثل بن جاتے ہیں اورکبھی توایسے اشخاص کی کوتاہیوں کی سزا ان کے ورثاء اورپورے معاشرے کو بھی بھگتناپڑجاتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں