466

انٹرنیٹ کی کالی دنیا/تحریر/محمد طاہر علی حیدر (کراچی)

آپ جو انٹرنیٹ دن رات چلاتے ہیں، اس کے متعلق کتنی معلومات ہیں آپ کو؟؟؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ جتنا انٹرنیٹ آپ روز استمعال کرتے ہیں وہ کل انٹرنیٹ کا صرف چار فیصد ھے—؟ جی ہاں ! اور اسے Surface web یا lightweb کہتے ہیں۔
انٹرنیٹ کی دنیا آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ وسیع اور پیچیدہ ہے اگر آپ کو لگتا ہے کہ گوگل یا پھر یاہو جیسے کسی بھی مشہور سرچ انجن سے آپ تمام انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں تو آپ غلط سوچتے ہیں، کیونکہ ہم لوگ انٹرنیٹ کا صرف چار فیصد حصہ ہی استعمال کر سکتے ہیں جبکہ باقی چھیانوے فیصد حصہ ہماری پہنچ سے بہت دور رکھا گیا ہے، انٹرنیٹ کا یہ حصہ ڈیپ ویب اور ڈارک ویب پر مشتمل ہے۔

انٹرنیٹ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے

سرفیس ویب Surface web:
سرفیس ویب وہ ویب ہے جو ہم میں سے ہر کوئی استعمال کرتا ہے جس میں روز مرہ کے کام یعنی گوگل, فیس بک, ویکیپیڈیا, یوٹیوب وغیرہ تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ وہ ویب سائٹس ہوتیں جو انڈیکسڈ ہوئی ہوتیں ہیں۔ جن کے لنکس کو گوگل کے اندر ایڈ کیا جاتا ہے۔ جنھیں ہم سرچ کرتے ہیں تو اُن تک رسائی ممکن ہے۔

دیپ ویب Deep web:
یہ وہ ویب سائٹس ہوتیں ہیں جو انڈیکسڈ نہیں ہوئی ہوتیں۔

یہ بنک ریکارڈز، میڈیکل ریکارڈز، سائنٹیفک رپورٹز، اکیڈیمک انفارمیشن، یعنی تمام ایسی سائٹز ہیں جن تک رسائی تب ہی حاصل کی جا سکتی ہے جب اُن کا ایڈریس ہمارے پاس ہو۔ یعنی اُن کے ایمپلائی یا کسٹمر یا سٹوڈنٹس ہی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ جن کے پاس پاسورڈ اور یوزر آئی۔ ڈی ہو، اس کو مریانہ ویب کا نام بھی دیا جاتا ہے جو سمندر کا سب سے گہرا حصہ ہوتا جہاں پہنچنا مُشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتا۔ ان ویب سائٹس تک پہنچنے کے لیے مخصوص براوزر یوزر آئی۔ ڈی اور پاسورڈ کی ضرورت ہوتی۔
یہ وہ وہ جگہ ہے جہاں ایک عجیب ہی دنیا شیطانیت میں ڈوبی ہوتی ہے۔ یہ وہ ویب ہے جہاں تک پہنچا نہیں جا سکتا اور پہنچنا چاہیں تو غیر قانونی ہونے کے ساتھ انتہائی خطرناک بھی ہے۔ یہاں جو لوگ کام کرتے ہیں اُن کے سرورز بھی پرائیویٹ ہوتے ہیں۔ یہاں پر کسی بھی ریگولر براوزر سے رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ایک مخصوص براوزر ہے ٹی۔او۔آر۔یعنیTORاسی کے ذریعے ہم یہاں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس ویب تک رسائی حاصل کرنے سے ہماری انفارمیشن ان تک جا سکتی ہے جس کو یہ اپنے کسی بھی گندے مقصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور ہمیں پھنسا سکتے ہیں۔ یہاں پیسوں کی ادائیگی کے لیے بِٹ کوئین کرنسی متعارف کروائی گئی ہے جو ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے۔

ڈارک ویب Dark web:
یہ ویب خفیہ ادارے، مافیا، ہٹ مین، سیکرٹ سوسائٹیز استعمال کرتیں۔ یہاں پر ڈرگز کا،ویپنز کا،کنٹریکٹ کلنگز کا،چائیلڈز پورنو گرافی کا، پرائیویٹ لائیو فائٹس کا، ملکوں کے راز چُرانے اور بیچنے کا، انسانی اعضاء بیچنے اور خریدنے کا، لوگوں کے بنک اکاونٹس ہیک کرنے کا کاروبار ہوتا ہے۔ یعنی ہر دو نمبر کام یہاں پر ہوتا ہے ان کو پکڑنا بہت ہی مُشکل ہے ایک طرح سے ناممکن ہے۔ صدیوں پرانے جنگی راز، کریڈٹ کارڈ کی چوری شدہ معلومات، لوگوں پر تشدد کرنا اور ان کو مرتے ہوئے دکھانا ان کے اعضاء کو کاٹنا اور پھر ان ویڈیوز کو بیچنا یہ سب کام ڈارک ویب میں ہی ہوتے ہیں یہاں لوگوں کو لائیو کاٹتے ہوئے انھیں دردناک موت دیتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور لوگ اس کو نہ صرف دیکھنے کے پیسے دیتے ہیں بلکہ باقاعدہ بولی لگاتے ہیں کہ اس شخص کو فلاں طرح کی اذیت دینے پر میں تمہیں اتنا پیسہ دوں گا اور ظاہر ہے کہ یہ سب دیکھنے والے لوگ اور جرائم پیشہ عناصر اس کی بدولت بے تحاشا پیسہ کماتے ہیں، ان پیسوں کی ادائیگی آن لائن بٹ کوائن کی صورت میں کی جاتی ہے بٹ کوائن ایک آن لائن کرپٹو کرنسی ہے یا پھر اسے ڈی سینٹرلائز کرنسی بھی کہہ سکتے ہیں جسے گورنمنٹ کنٹرول نہیں کرتی اور یہ ڈائریکٹ خریدنے اور بھیجنے والے کے والیٹ میں آن لائن بھیج دی جاتی ہے جسے ٹریس نہیں کیا جا سکتا۔ ریڈ روم میں جانے کے لیے آپ کو ایک مخصوص لنک بھیجا جاتا ہے جس کے ذریعے آپ اسطرح کی لائیو سٹریم کو جوائن کر سکتے ہیں، اس سے پہلے آپ سے رقم آن لائن بٹ کوائن کی صورت میں لے لی جاتی ہے۔ان کے بعد اس سب کا باپ Marianas web ہے۔ جسے نہ کوئی جان سکا نہ جانتا ہے اور نہ اس تک پہنچنا آسان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں دنیا کی چند بڑی طاقتوں کے قیمتی راز دفن ہیں جیسے اسرائیل امریکہ وغیرہ نیز اسکے ٹاپ آپریٹرز iluminaties ہیں جہاں دنیا بھر کے الومناٹیز کا ڈیٹا بیس موجود ہے۔ ڈارک ورلڈ میں ایک خاص قسم کی ویب سائٹس کو ریڈ رومز کہا جاتا ہے، وہاں تک رسائی تقریبا ناممکن ہے ،ڈارک ویب ورلڈ میں یہ سب سے خفیہ رومز ہیں۔ ایسی ایک ویب سائٹ بھی موجود ہے جہاں پر یورپ بھر میں کسی کے بھی قتل کی سپاری دے سکتے ہیں۔ ۔عام شخص کا قتل بیس ہزار یورو۔ صحافی کا قتل ستر ہزار یورو اور سلیبرٹی کے قتل کا ریٹ ایک لاکھ یورو سے شروع ہوتا ہے۔ ایک ویب سائٹ کا کلیم ہے کہ وہ مردہ بچوں کی روحیں فروخت کرتے ہیں۔

پنک متھ ایک ویب سائٹ ہوتی تھی جو کہ دو ہزار چودہ میں ٹریس کر کے بین کر دی گئی۔ وہاں لوگ اپنی سابقہ گرل فرینڈز، بیوی سے انتقام کی خاطر ان کی عریاں تصاویر بیچتے تھے اور ویب سائٹس ان لڑکیوں کے نام، ہوم ایڈریس اور فون نمبر کے ساتھ یہ تصاویر شیئر کرتی تھی۔ اس ویب سائٹ کی وجہ سے چار سے زیادہ لڑکیاں خود کشی کر چکی تھیں۔ لیکن یہ ویب سائٹ باز نہیں آئی۔ ایف بی آئی نے دو ہزار چودہ میں اس کے خلاف تحقیات شروع کیں اور اس کا سرور ٹریس کر کے بند کر دیا۔ مالکان آج تک فرار ہیں(ویب سائٹ چونکہ اب آپریٹ نہیں کرتی اس لیے نام بتا دیا)۔

ڈارک ورلڈ یا ڈیپ ورلڈ میں کچھ ایسی گیمز بھی پائی جاتی ہیں جو عام دنیا میں شاید بین کر دی جائیں۔ ایسی ہی ایک خوفناک گیم کا نام ” سیڈ ستان(شیطان ) ” ہے۔ اس گیم کے گرافکس اس قدر خوفناک ہیں کہ عام دنیا میں کوئی بھی گیم اسٹور اس گیم کی اجازت نہیں دے گا۔ انسانی اسمگلنگ کا سب سے بڑا گڑھ ڈارک ویب ورلڈ کو کہا جاتا ہے۔ یہاں خواتین کو بیچنے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ جوزف کاکس جو کہ ایک ریسرچر ہیں وہ دو ہزار پندرہ میں ڈیپ ویب ورلڈ پر ریسرچ کر رہے تھے۔ ایسے میں اسی ورلڈ میں انھیں گروپ ٹکرایا جس کا نام “بلیک ڈیتھ ” تھا اور انھوں نے جوزف کو ایک عورت بیچنے کی آفر کی جس کا نام نکول بتایا اور وہ گروپ اس عورت کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ڈالرز مانگ رہا تھا۔ کینی بال یعنی آدم خوروں کا ایک فورم ہے جہاں کے اراکین ایک دوسرے کو اپنے جسم کے کسی حصے کا گوشت فروخت کرتے ہیں۔ جیسا پچھلے دنوں وہاں ایک پوسٹ لگی جس کے الفاظ یہ تھے” کیا کوئی میری ران کا آدھا پاونڈ گوشت کھانا چاہے گا؟ صرف پانچ ہزار ڈالرز میں، اسے خود کاٹنے کی اجازت ہو گی۔

اور جہاز تباہ ہونے کے بعد بلیک باکس (جہاز کا ایک آلہ) تلاش کیا جاتا ہے کیوں کہ وہ ایسے میٹریل سے بنا ہوتا ہے جو تباہ نہیں ہوتا۔ اس بلیک باکس میں پائلٹ اور پائلٹ کی آخری ریکاڈنگز ہوتی ہے،اس سے پتا چل جاتا ہے کہ تباہ ہونے سے پہلے کیا ہوا تھا، ایک ویب سائٹ پر تباہ شدہ جہازوں کی آخری ریکاڈنگز موجود ہیں، وہاں نائن الیون کے جہاز کی آڈیو فائل بھی موجود ہے، ایک ویب سائٹ جوتے، پرس، بیلٹ وغیرہ بیچتی ہے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ یہ انسانی کھالوں سے بنے ہیں۔ لکھنے کو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ آپ اس بارے بزنس انسائیڈر، ریڈٹ، یا مختلف فورمز پر آرٹیکلز بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن ڈارک ویب ورلڈ ایسی گھناونی دنیا ہے جس کے بارے بس اتنا سا ہی جاننا ضروری ہے۔

اب آتے ہیں اصل مدعا کی طرف کہ پاکستان میں ہونے والے لگاتار بچوں کے اغوا، اُن کے ساتھ جنسی تشدد اور اُن کو مار دینا، بچوں کا قتل پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن پاکستان میں سچ کو ہمیشہ مسخ کیا جاتا رہا اور پاکستان میں ہی کیوں دنیا کے بیشتر ممالک میں یہی سب ہو رہا ہے۔آج سے بائیس برس پہلے کا ایک کیس کچھ دوستوں کو یاد ہوگا جاوید اقبال مغل سو بچوں کو قتل کرنے والا درندہ جو بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کرتا تھا اُن کو قتل کرتا تھا اور اُن کی لاشوں کو تیزاب میں جلا دیتا تھا۔ جاوید اقبال مغل جسے جسٹس اللہ بخش رانجھا نے سو دفعہ پھانسی پر چڑھانے کا حُکم دیا تھا۔ اُسے ایک نفسیاتی مریض کہا گیا تھا۔ روزنامہ ڈان کی دو ہزار ایک میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطاق جاوید اقبال مغل نے ایک ویڈیو گیم سینٹر بنایا ہوا تھا جہاں وہ بچوں کو ٹریپ کرتا تھا اُن کے ساتھ جنسی تشدد کرتا تھا اُنھیں پیسے دیتا تھا اور ڈرا دھمکا کر چپ کروا دیتا تھا۔

قتل کرنے کے لیے وہ گھر سے بھاگے بچوں اور فُٹ پاتھ پر رہنے والے غریب بچوں کا انتخاب کرتا تھا۔ تین دسمبر اُنیس سو ننانوے کو ایک اردو اخبار کے دفتر پہنچ کر اُس نے اعتراف کیا تھا۔ کہ میں جاوید اقبال ہوں سو بچوں کا قاتل۔ میں نے سو بچوں کا قتل کیا ہے اور مجھے نفرت ہے اس دنیا سے مجھے بچوں کو قتل کرنے پر کوئی ندامت نہیں ہے۔ جاوید اقبال مغل اور اُس کی اعانت کرنے والوں کو موت کی سزا سنائی گئی اور بعد میں جاوید اقبال اور اُس کے ساتھی نے جیل میں زہر کھا کر خود کشی کر لی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کسی خفیہ ہاتھ نے اُن کو ختم کروا دیا تھا اور یہ کیس تھا ہیومین آرگنز کی اسمگلنگ کا۔ یعنی بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کی ویڈیوز اور بعد میں اُن کو قتل کرکے اُن کے جسمانی اعضاء بیچے گئے تھے اور جاوید اقبال مغل کو خاموش کروا دیا گیا۔ خفیہ ہاتھوں کے لیے کئی جاوید اقبال کام کرتے ہیں۔

دو ہزار پندرہ کا ایک بڑا اسکینڈل جس میں دو ہزار چھ سے لیے کر دو ہزار پندرہ تک تین سو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے اُن کی ویڈیوز بنائی گئیں اور اُس سارے معاملے میں پولیس اور ایم۔پی۔اے ملک احمد سعید کو ملوث بتایا گیا۔ ہم جس طرح سے ہر کیس کو جہالت اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو وجہ بنا کر چُپ ہو جاتے ہیں ایسا نہیں ہے، یہ ایک ملٹی ٹریلین انڈسٹری ہے۔ کچھ سال قبل قصور میں زینب بھی اسی جنسی تشدد کا شکار ہوئی اور بعد میں اُس کی لاش کچرے میں پائی گئی۔ اور پورے پاکستان میں ہی یہ ہو رہا مذہبی کمیونٹی لبرلز کو اسکی وجہ مانتے ہیں اور لبرلز اس کو مولویوں پر تھوپ رہے بھائی لوگ یہ اتنا سادہ کام نہیں ہے یہ کسی محرومی کی وجہ سے یا نفسیاتی پیچیدگیوں کی وجہ سے نہیں ہو رہا یہ کاروبار ہے۔ بہت بڑا کاروبار ہے مثال کے طور دنیا کے کچھ امیر لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ڈارک ویب پر جاتے جہاں وہ کسی مخصوص ویب سائیٹ کے ممبر ہوتے وہاں باقاعدہ لائیو دیکھایا جاتا ہے۔

پرائیویٹ فائٹس میں کسی ایک فائٹر کے مرنے تک یہ لوگ بولیاں لگاتے رہتے ہم لوگ ایک ایسی شیطانی دنیا میں رہ رہے ہیں جس کی شیطانیت پوری طرح سے انسانیت پر غالب آچکی ہے۔ نکلو جاگو اُٹھو ورنہ دنیا سے اُٹھ جاو گے۔ یہاں کچھ بُرے لوگ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی کیا حالت ہے۔ کرپشن، بے ایمانی، رشوت خوری ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔ ہم چُپ ہیں یوں جیسے مر چُکے ہیں۔ ہمیں اُٹھنا پڑے گا ورنہ ایک عام انسان کی پہلے سے جہنم زندگی اور بھی جہنم بن جائے گی.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں