76

اپنی شریکِ حیات کے سُکھ کا خیال رکھیں /تحریر/رفیع صحراٸی

شادی ایک مقدس فریضہ ہے۔ اتنا مقدس کہ مرد اس کی تقدیس کے عمل کو بار بار دہرانا چاہتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت ایک ہی مرد (خاوند) سے جو توقعات رکھتی ہے مرد ہر خاتون سے وہی توقعات وابستہ کر لیتا ہے۔کہتے ہیں کہ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں۔ ان کے باہمی اتفاق سے ہی یہ گاڑی رواں دواں رہ سکتی ہے مگر دو پہیوں والی گاڑی تو ساٸیکل یا موٹر ساٸیکل ہی ہو سکتی ہے۔ اور ساٸیکل کو گاڑی کہنا گاڑی کی توہین کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ یہ دو پہیوں والی ”گاڑی“چلتے ہوۓ اکثر ڈانوا ڈول ہی دیکھی گٸی ہے کیونکہ اس کا ایک ٹاٸر تو ساٸیکل کا ہی ہوتا ہے مگر دوسرا ٹاٸر ٹریکٹر کا لگا کر اس گاڑی کو روانی کے ساتھ چلنے کی دعاٸیں دی جاتی ہیں۔ حالانکہ دعاٶں کے سہارے اگر گاڑیاں چلتی ہوتیں تو مستریوں کا کام ہی ٹھپ ہو جاتا، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مستریوں کا کام روز بروز عروج کی طرف گامزن ہے۔ میاں بیوی کی چلتی گاڑی میں اگر خلل آ جاۓ تو روحانی مستریوں یعنی تعویز گنڈا کرنے والوں سے رجوع کیا جاتا ہے۔ ان مستریوں میں اکثریت روحانیت میں اناڑی مگر باتوں کی کھلاڑی ہوتی ہے اور وہ لوگ صحیح معنوں میں اپنی ”زبان کا کھٹیا“ کھاتے ہیں۔ یعنی اپنی روزی کا کنٶاں اپنی زبان سے کھودتے ہیں۔ میرا دوست ملک شکیل علوی اکثر کہا کرتا ہے کہ دنیا میں جب تک بے وقوف زندہ ہیں عقلمند بھوکے نہیں رہ سکتے۔ اس کا اشارہ بھی غالباً ہمارے ہاں کی خواتین کی طرف ہوتا ہے جو اپنے مردوں کی خون پسینے کی کماٸی ان جعلی عاملوں پر بے دریغ لُٹا کر اپنے خاوند کو ”غلام“ بنانے کے تعویذ لیتی ہیں۔ گویا انہیں ایک آزاد بادشاہ کی ملکہ بننے کی نسبت ایک غلام کی جورو بننا زیادہ پسند ہوتا ہے۔ ویسے ایک لحاظ سے دیکھا جاۓ تو عورت اپنے میاں کو ”قابو“ میں رکھنے کی خواہش کے حوالے سے حق بجانب بھی ہے۔ آپ کسی عورت کی صرف بیس سالہ ازدواجی زندگی پر ہی غور فرما لیں۔ایک بیوی بیس سال میں تقریباً (2kgx 365x 20) 365 من آٹا گوندھتی ہے ڈیڑھ لاکھ روٹیاں اور 200 من چاول پکاتی ہے 300 من سبزی اور گوشت وغیرہ پکاتی ہےروزانہ 10 مرلے پر جھاڑو پوچا یعنی کل 20 سال میں 2138.2 مربع کلومیٹر پر جھاڑو پوچا کرتی ہےتقریباً 40 ہزار جوڑے کپڑے دھوتی ہے اور استری کرتی ہے مہمانوں اور آنے جانے والوں کی تواضع اس کے علاوہ ہے۔بچے پیدا کرتی ہے اور ان کی مفت کی نوکرانی بن کر اپنے خاوند کے لاکھوں روپے کی بچت کرتی ہے۔ اگر خاوند یا بچے بیمار ہو جاٸیں تو خود تھکن سے چور ہونے کے باوجود ان کے سر اور ٹانگیں دباتی ہے۔ بچوں کے سر کی مالش کرتی ہے، انہیں نہلاتی دُھلاتی ہے۔ بچوں کو سکول کے لٸے تیار کرتی ہے، ان کی واپسی پر کھانا تیار کر کے رکھتی ہے۔ خاوند کو سُکھ اور آرام پہنچانے کی خاطر اپنا سکون برباد کر لیتی ہے، اپنا آرام تیاگ دیتی ہے۔ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد اگر اس کا خاوند اس دسترس یا دست بُرد سے بچنے کی کوشش کرے تو وہ یہ خواہش رکھنے میں حق بجانب ہے کہ اس کا خاوند ”نوکر ووہٹی دا“ بن کر رہے۔ رم مرید صرف ایک محاورہ ہی نہیں رہا بلکہ ہمارے ایک بہت بڑے سیاسی رہنما نے جب سے سرِعام اپنی زوجہ محترمہ کو ”مرشد پاک“ کہنا شروع کیا ہے اس کے سیاسی مقلدین نے بھی اس کی سنت پر عمل کرتے ہوٸے ”رن مریدی“ کے مقدس رشتے کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔ دیکھا جاٸے تو بیوی کی پُر مشقت اور آلام سے بھرپور زندگی کا اوپر جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ مرد کی ظالمانہ سوچ کا عکاس ہے جس نے بیچاری عورت کو ایک مشین بنا کر رکھ دیا ہے۔ بیوی اس بے تحاشہ مشقت میں ریلیف کی حق دار ہے۔ ذرا سوچیں !وہ بھی انسان ہے ۔احساس کریں اسکا بھی ۔ آخر وہ بھی کسی کی بیٹی ہے۔ اسے بھی آرام و سکون کی ضرورت ہے۔ ذرا غور کریں! یہ کام جو وہ اکیلی کر کر کے ہلکان ہو جاتی ہے اگر یہی کام دو بیویاں کریں تو کتنی آسانی ہو جائے ۔ اور اگر چار بیویاں کریں تو سوچیں روزمرہ کے کام آپس میں بانٹ کر کرنے کی وجہ سے ان کی زندگی کتنی سہل ہو جائے گی۔ویسے بھی دو پہیوں والی ساٸیکل کی بجاۓ چار پہیوں والی گاڑی کی طرف ترقی کا سفر کرنا کون نہیں چاہتا؟ البتہ ایک خطرہ موجود ہے کہ کہیں چار بیویاں چار پہیے بن کر گاڑی کو چلا لیں اور خاوند بیچارا سٹپنی بن کر گاڑی کی ڈگی میں ہی پڑا رہ جاۓ۔ بہرحال قابل غور تجویز ہے بس عمل کریں اور اپنی شریک حیات کی زندگی آسان سے آسان تر بناٸیں۔ ہمارا کام تو معقول اور نیک مشورہ دینا تھا۔ آگے آپ کی مرضی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں