اکایک سڑک پر بورڈ لگا ہوا تھا جس پر موٹے موٹےحرورف میں لکھا ہوا تھا۔ ”حد رفتار 60 کلومیٹر“یہ بورڈ ڈراٸیوروں کو بہت دور سے نظر آ جاتا تھا چنانچہ وہ اس کے قریب پہنچتے پہنچتے گاڑی کی رفتار 60 کلومیٹر فی گھنٹہ سے کافی کم کر لیتے۔ جب وہ اس بورڈ کے قریب پہنچتے تو دوسری طرف آڑ میں کھڑا ہوا ایک ٹریفک پولیس کا سپاہی نکلتا اور ڈراٸیور کو رکنے کا اشارہ کر کے اس کے ہاتھ میں جرمانے کی پرچی تھما دیتا۔ ڈراٸیور احتجاج کرتے ہوٸے بتاتا کہ اس نے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور ناحق اسے جرمانے کیا گیا ہے۔ پولیس مین اسے دوبارہ بورڈ پڑھنے کا مشورہ دیتا جس پر موٹے موٹے حروف میں لکھا تھا۔”حد رفتار 60 کلومیٹر“تب ڈراٸیور کی نظر اس عبارت سے پہلے انتہاٸی باریک لکھے ہوٸے الفاظ پر پڑتی جو کچھ یوں تھے ”کم از کم“یعنی پوری عبارت اس طرح سے تھی۔ ”کم از کم حد رفتار 60 کلومیٹر۔ ٹریفک پولیس والوں نے لوگوں کی جیبوں سے رقم نکالنے کا ایسا انوکھا طریقہ اختیار کیا تھا جس پر احتجاج تو کیا جا سکتا تھا مگر مفر ممکن نہیں تھا۔یہی کچھ آج کل حکومت عوام کے ساتھ کر رہی ہے۔ حال ہی میں اس نے گیس کی قیمتیں قریباً تین گنا کر دی ہیں۔ اتنے بڑے اضافے پر شہری انتہاٸی پریشان اور انگشت بدنداں ہیں کہ یہ نگران حکومت ان کے ساتھ کر کیا رہی ہے۔ اتنا بڑا اضافہ تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے۔ عوام بے کسی کے ساتھ ساتھ بے بسی کی تصویر بنے ہوٸے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے ساٸن بورڈ کی طرح حکومت نے صارفین کے ساتھ ایک اور ہاتھ یہ کر دیا ہے کہ گیس کی قیمت میں اس اضافے کا اطلاق یکم جولاٸی سے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی گزشتہ چار ماہ میں صارفین گیس کے جتنے بل جمع کروا چکے ہیں اس سے قریباً دوگنا رقم یکمشت ان کی جیبوں سے نکالنے کا بندوبست بھی کر لیا گیا ہے۔ کبھی بجلی، کبھی گیس، کبھی چینی، کبھی دیگر اشیاٸے صرف کی قیمتوں میں آٸے روز اضافہ دیکھ دیکھ کر اب تو عوام میں رونے کی سکت بھی نہیں رہی۔ عوام ایک خواب، ایک سکتے کے عالم میں بیٹیوں کے چھوٹے موٹے زیور، اپنی جمع پونجی، گھر کی مشینری اور دیگر چھوٹی موٹی اشیا ٕ بیچ کر یوٹیلٹی بلوں کی مد میں حکومتی خزانہ بھرنے میں لگی ہے مگر شاید اس خزانے میں روزانہ کی بنیاد پر سیندھ لگا کر اسے ساتھ ساتھ ہی خالی بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ یا پھر یہ خزانہ بھی عمر و عیار کی زنبیل بن گیا ہے جس نے ہر چیز کو اپنے اندر سما لینا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں مینڈیٹ سے زیادہ طویل العمر نگران حکومتیں بھگتنا پڑ رہی ہیں۔ ووٹ لے کر آنے والی سیاسی حکومتیں اپنی مقبولیت بچانے اور قبولِ عام بننے کی خاطر عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتی ہیں۔ دیہاڑی داروں کو ایسی کوٸی مجبوری نہیں ہے۔ انہوں نے سیاست کرنی ہے نہ عوام کے پاس ووٹ کے لٸے جانا ہے۔ اس لٸے انہوں نے بے حسی کا لبادہ ہی نہیں اوڑھ رکھا بلکہ سراپا بے حسی اور مجسم ظلم بنے ہوٸے ہوٸے ہیں۔ تبھی تو کارخانہ داروں اور بڑے سرمایہ داروں کو اشیا ٕ مہنگی کرنے کے باوجود سبسڈی دی جا رہی ہے مگر عوام کو ہر قسم کی سبسڈی سے محروم کر کے یوٹیلٹی سٹوروں پر اشیاٸے صرف بازار سے بھی مہنگی کر دی گٸی ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ متاثر طبقہ سفید پوش اور سرکاری ملازمین کا ہے۔ سفید پوش اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوٸے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ انہیں سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ بجلی کے یوٹیلٹی بل دیں یا بچوں کی خوراک خریدیں۔ اولاد کے تعلیمی اخراجات برداشت کریں یا ان کے لٸے لباس خریدیں۔ دوستوں، رشتہ داروں کی شادی کا کارڈ آ جاٸے تو گویا صفِ ماتم بچھ جاتی ہے کہ اب یہ اضافی خرچہ کہاں سے لاٸیں، گھر میں تو کھانے کے لالے پڑے ہوٸے ہیں۔ سرکاری ملازمین سب سے زیادہ مظلوم بن کر رہ گٸے ہیں۔ وہ مکمل طور پر حکومت کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ موجودہ نگران حکومتوں نے ان ملازمین کو اپنی ہٹ لسٹ پر رکھا ہوا ہے۔ مراعات چھین کر اور ہاتھ پاٶں باندھ کر مہنگاٸی کے عفریت کے آگے انہیں پٹخ دیا ہے۔ پٹرول اور گیس ہی کے بل ان کی استطاعت سے دور ہو چکے ہیں کہ بقول برادرِ مکرم مسعود اوکاڑوی بیس روپے سرکار بڑھا کرپندرہ پیسے لَیسّ کرتی ہےاس قدر مہنگاٸی کا طوفان برپا کرنے سے پہلے انسانیت کے ناتے سے ہی سوچ لیا جاٸے کہ کیا آپ نے سرکاری ملازمین یا سفید پوش طبقے کی آمدنی میں بھی اتناضافہ کر دیا ہے جس قدر مہنگاٸی کا بوجھ ان پر لاد دیا ہے؟۔دکھ تو اس کا ہے کہ عدلیہ نے بھی عوام سے منہ موڑ لیا ہے۔ بات خودکشیوں تک پہنچ چکی ہے مگر کسی صوبے کے ہاٸیکورٹ یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو سوموٹو لینے اور حکومتی نماٸندوں کوبجلی، پٹرول اور گیس کو بے تحاشہ مہنگا کرنے پر عدالت میں طلب کرنے کی توفیق نہیں ہوٸی۔ ہوتی بھی کیسی؟ ان کو بجلی، گیس اور پٹرول مفت دستیاب ہیں۔ عوام جاٸے بھاڑ میں۔ اگر اپنی تنخواہ سے یوٹیلٹی بلز ادا کرنے پڑتے تو ممکن ہے اونچی کرسی پر بیٹھنے والے یہ منصف عوام کو انصاف دلا سکتے۔ فی الحال تو عوام مہنگاٸی کی چکی کے دو پاٹوں میں پِس رہے ہیں۔ عوام کی تقدیر کی مالک حکومت، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ بیلنے میں جاتے ہوٸے عوام کے نچڑتے ہوٸے خون کو بے حسی کے ساتھ دیکھ رہی ہیں۔ منیر نیازی سے معذرت کے ساتھاک بے حِسی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو!خونِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو!