78

ایک دھرنا اور/تحریر/ رفیع صحرائی


لیجٸے صاحبان! آل گورنمنٹ ایمپلاٸیزگرین الاٸنس(اگیگا) پنجاب کی کال پر پنجاب میں سرکاری ملازمین ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آ گٸے ہیں۔ لاہور سیکریٹیریٹ کا علاقہ ان کی آماجگاہ بن چکا ہے اور سرکاری ملازمین کی ایک بہت بڑی تعداد جس میں عورتیں بھی بچوں سمیت موجود ہیں اس وقت اپنے مطالبات کے حق میں گھروں کو چھوڑکر سڑکوں پر ہیں۔ یہ ملازمین حکومتِ وقت سے کوٸی خصوصی مراعات نہیں مانگ رہے بلکہ اسی حکومت کی طرف سے غصب کٸے گٸے اپنے حقوق کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سے قبل 10 جولاٸی 2023 کو بھی پنجاب کے سرکاری ملازمین نے پنجاب کی تاریخ کے سب سے بڑے دھرنے کا آغاز کیا تھا۔ اور مثبت نتاٸج حاصل کٸے تھے۔ تب سالانہ بجٹ کے موقع پر وفاق اور دیگر صوبوں کے برعکس پنجاب کے سرکاری ملازمین کو کُند چھری سے ذبح کرنے کافیصلہ سامنے آیا تھا۔ دیگر صوبوں اور وفاق میں ملازمین کی تنخواہ میں جاری بنیادی تنخواہ پر پینتیس فیصد اضافہ کیا گیا تھا جبکہ پنجاب میں بنیادی تنخواہ کی ابتداٸی سٹیج پر تیس فیصد اضافہ کیا گیا جو حقیقت میں قریباً دس فیصد بنتا تھا۔ وفاق اور دوسرےصوبوں نے سرکاری پنشنرز کی پنشن میں 17.5 فیصد اضافہ کیا تھا مگر پنجاب حکومت نے صرف پانچ فیصد اضافہ کو ہی کافی سمجھا۔ سرکاری ملازمین اس ظلم و زیادتی پر سراپا احتجاج بن گٸے اور پھر لاہور شہر نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا دیکھا جس کا اختتام سرکاری ملازمین کی کامیابی پر ہوا۔ اس دوران پورے پانچ روز شدید گرمی اور سخت موسم میں سرکاری ملازمین سڑکوں پر بیٹھے رہے مگر حیرت انگیز طور پر الیکٹرانک میڈیا کو وہ ساٹھ ہزار احتجاج کرنے والے ملازمین نظر نہ آٸے۔ کسی دور دراز کے گاٶں میں ایک بَچھڑے کی پیداٸش کی خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کرنے والا میڈیا اس قدر کنٹرولڈ تھا کہ ملازمین کے دھرنے کی کوریج کرتے ہوٸے اس کے پر جلتے تھے۔ صورتِ حال اب بھی ویسی ہی ہے۔ پنجاب سیکریٹیریٹ کے علاقے میں ہزاروں ملازمین دھرنا دیٸے بیٹھے ہیں مگر میڈیا آنکھیں بند کٸے ہوٸے ہے۔
ملازمین اس مرتبہ اپنی پنشن اور لیو انکیشمنٹ پر ڈاکہ پڑنے کے فیصلے پر سراپا احتجاج ہیں۔ جبکہ محکمہ تعلیم کے ملازمین اور اساتذہ سرکار ی سکولوں کی نجکاری بھی رکوانا چاہتے ہیں۔ حکومتی فیصلے کے تحت لیو انکیشمنٹ آخری جاری بنیادی تنخواہ کے بجاٸے آخری تین تنخواہوں کی اوسط کے حساب سے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ ان کی پنشن کے سلسلے میں بھی ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی گٸی ہے اور اس میں اچھا خاصہ کٹ لگا کر سرکاری خزانہ بھرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس وقت عملی طور پر صوبہ پنجاب میں سرکاری دفاتر میں کام ٹھپ ہو چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں پہلے ہی ایک لاکھ دس ہزار اساتذہ کی کمی ہے۔ اب موجود اساتذہ کی بھی ایک بڑی تعداد دھرنے میں شریک ہے اور تعلیمی اداروں میں تدریسی سرگرمیاں تقریباً معطل ہو گٸی ہیں۔ جو اساتذہ مرکزی دھرنے میں نہیں گٸے وہ سکولوں میں دھرنا دے کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ اگر دو تین روز تک دھرنے کے شرکا ٕ کو مطلوبہ نتاٸج نہ مل سکے تو ممکن ہے جولاٸی والے دھرنے کی طرز پر پنجاب میں تمام سرکاری دفاتر کی تالہ بندی ہو جاٸے اور تعلیمی ادارے بھی بند کر کے تمام اساتذہ لاہور کا رخ اختیار کر لیں۔ ایسی صورت میں نہ صرف حکومتی امور چلانے دشوار ہو جاٸیں گے بلکہ لاہور شہر میں بھی امنِ عامہ کی صورتِ حال کافی خراب ہو سکتی ہے۔
ملازمین کو اس صورتِ حال کا بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی صرف نگران حکومت نے ہی نہیں کی ہے بلکہ اصل ذمہ دار گزشتہ شہباز شریف حکومت ہے جس نے آٸی ایم ایف کو ملازمین کُش پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی یقین دہانی کرواٸی تھی۔ شہباز شریف کے دور میں ہی پنجاب میں سرکاری ملازمین کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ گزشتہ دھرنے کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کے اہم رہنما جناب احمد خان نے ہی سرکاری ملازمین سے کامیاب مذاکرات کٸے تھے۔ حقیقت میں پنجاب کی نگران حکومت مسلم لیگ ن کا ہی تسلسل ہے۔ اس حکومت کی کارکردگی کا تمام کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ مسلم لیگ ن کے کھاتے میں ہی جاٸے گا۔ پنجاب کے سرکاری ملازمین نے ایسے وقت میں دھرنا دیا ہے جب مسلم لیگ ن کے جلاوطن لیڈر میاں نواز شریف چار سالہ جلاوطنی کاٹ کر چند روز بعد اکیس اکتوبر کو وطن واپس آ رہے ہیں۔ ان کی آمد اسی لاہور شہر میں ہو گی جہاں ان کے استقبال کے لٸے مینارِ پاکستان کے وسیع و عریض گراٶنڈ میں ایک بہت بڑے پاور شو کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ پورے پنجاب میں سابق ممبران اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز کی میٹنگز جاری ہیں اور زیادہ سے زیادہ کراٶڈ اکٹھا کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں سرکاری ملازمین کا یوں سڑکوں پر آ کر دھرنا دے کر بیٹھ جانا مسلم لیگ ن کی قیادت کے لٸے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر یہ دھرنا طوالت اختیار کر گیا تو ممکن ہے نواز شریف کے استقبالیہ جلسے کی نسبت اس موقع پر احتجاج کرنے والوں کی تعداد بڑھ جاٸے جس کا اثر آٸندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کی مقبولیت اور کارکردگی پر بھی پڑے گا۔ اس دھرنے کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا جاٸے گا اسی قدر سیاسی مداخلت اس میں بڑھتی جاٸے گی۔ گزشتہ دھرنے کے موقع پر جناب سراج الحق کے علاوہ ٹی ایل پی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اظہارِ یکجہتی سے حکومت نے گھٹنے ٹیک دیٸے تھے۔ اس مرتبہ الیکشن قریب ہونے کی وجہ سے ہر چھوٹی بڑی سیاسی پارٹی دھرنے میں ضرور پہنچے گی۔ ممکن ہے سیاسی پارٹیاں اپنے ورکرز کو دھرنے میں بھیج کر عملی اظہارِ یکجہتی کر کے حکومت اور مسلم لیگ ن کے خلاف مٶثر فضا بنانے میں کامیاب ہو جاٸیں جس کا مکمل نقصان مسلم لیگ ن کو ہو گا۔ مناسب یہی ہے کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب آٸی ایم ایف کے ساتھ دوسروں کے کٸے گٸے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کرتے ہوٸے آنے والی منتخب سیاسی حکومت کو ایسے غیر دانشمندانہ اور غیرمقبول فیصلے کرنے دیں۔ قریباً دس لاکھ ملازمین کے معاشی قتل کا مطلب یہی ہے کہ اس سے کم و بیش ایک کروڑ لوگ متاثر ہوں گے۔ وہ ایک کروڑ لوگ آٸندہ الیکشن میں اثرانداز ہو کر نتاٸج کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت ازخود حکومت کو قاٸل کر کے یہ ظالمانہ فیصلے واپس کروا کر سرکاری ملازمین کے دل جیت سکتی ہے۔ دھرنا ختم کروانے اور ملازمین کے مساٸل حل کروانے میں دیر نہ کیجٸے ورنہ بہت دیر ہو جاٸے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں