ایک
10 نبوی رجب کی 27 ویں رات آنحضو ر ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام آسمانوں کی سیر کروائی ۔آپ ﷺ نے جنت اور دوزخ کا معائنہ فرمایا ۔ حضرت ابو طالب کی بیٹی حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رو ایت ہے کہ معراج والی رات حضور ﷺ ان کے ہاں تھے ۔ نماز عشاء کے بعد آپ ﷺسو گئے اور ہم بھی سو گئے ۔ صبح نماز فجر کے بعد جب آپ ﷺ نے رات کا عجیب وغریب سفر بیان کیا۔ پھر آپ ﷺکھڑے ہوکر باہر نکلنے لگے تو میں نے ان کی چادر پکڑلی اور عرض کیا ! ’’ اے اللہ کے نبی !یہ بات لوگوں سے مت بیان فرمائیے گا ۔ وہ آپ ﷺ کو جھٹلائیں گے اور تمسخر اڑائیں گے ۔‘‘ مگر آپ ﷺنے فرمایا !’’ میں تو ضرور بیان کروں گا ۔‘‘ میں بہت پریشان ہوئی ۔میں نے اپنی ایک حبشی لونڈی سے کہا ’’ رسول اللہ a کے پیچھے پیچھے جائو اور سنو کہ آپ ﷺ لوگوں سے کیا فرماتے ہیں اور لوگ اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔ ‘‘ اسی اثنا میں ابو جہل کا سامنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوتا ہے۔ وہ روک کر آپ ؓ سے کہتا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس سے ہو آیا ہے اور آسمانوں کی سیر بھی کرائی گئی ہے تو کیا تم یقین کرلو گے ؟ آپ نے فوراً ہی سوال کیا کہ دعویٰ کس نے کیا ہے ؟ ابو جہل نے جواب دیا آپ ؓ کے دوست ( محمد ﷺ ) نے ۔ آپ ؓ پکار اٹھے کہ یہ الفاظ محمدالرسول اللہ ﷺکے ہیں تو ان میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ۔تو اسے ہرکوئی آدمی تسلیم کرتا ہے ۔ابو جہل اپنا سامنہ لے کر رہ گیا ۔ اسی واقعہ کی تصدیق پرآ پ ؓ کو ’’صدیق اکبر ‘‘ عظیم لقب ملا ۔ چنانچہ واقعہ کو ہنسی مخول میں دھرلیا گیا اور خوب مذاق بنایا ۔اس طرح صرف کفار ہی نہیں بلکہ متعدد مسلمانوں میں بھی ہلچل مچ گئی۔ بعض مسلمان تجارت کے سلسلہ میں اکثر شام آیا جایا کرتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ عام کاروان تجارت ایک ماہ میں شام پہنچتا ہے اور ایک ماہ مزید اس کی واپسی میں صرف ہوجاتا ہے ۔ آنحضور ﷺنے یہ دو طرفہ مسافت ایک رات میںکیسے طے کرلی ۔ علاوہ ازیں انہیں آسمانوں کی سیرو سیاحت کے مختلف بیانات بھی سمجھ میں نہ آرہے تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد مسلمان دین سے بد ظن ہوگئے ۔ کئی ایک مرتد بھی ہوگئے ۔ کچھ مسلمان حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچ گئے اور ان سے ان عجیب اورانوکھے بیانوں کی تصدیق چاہنے لگے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ ’’ اس میں تعجب کی کونسی بات ۔میں ہر روز سنتا ہوں کہ آسمان سے ان کے پیغام اترتے ہیں اور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں ‘‘ اس کے ساتھ ہی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان متذبذب مسلمانوں کی مزید تسلی کے لئے ان کے ساتھ آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : ’’ یارسول اللہ ﷺ ! میں نے بیت المقدس اچھی طرح دیکھا ہوا ہے ۔یہاں اور بھی ایسے افراد موجود ہیں جو اسے دیکھ چکے ہیں ۔ آپ ﷺ ذرا بیت المقدس کا نقشہ بیان فرمادیں تاکہ ان کی تسلی ہوجائے ۔ ‘‘ روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فوراً بیت المقدس کا نقشہ بیان فرمانا شروع کردیا ۔ آپ ﷺ نے ایک ایک کرکے سب باتیں اس طرح تفصیل سے بیان کردیں کہ بیت المقدس کی صحیح تصویر آنکھوں کے سامنے کھچ گئی، حالانکہ اس سفر سے پہلے آ پ ﷺ کبھی بھی بیت المقدس تشریف نہیں لے گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ ابو سفیان نے بحالت کفر حبشہ کے شہنشاہ ہرقل کے دربار میں واقعہ معراج محض حضور ﷺ کی تضحیک و تذلیل کے ثبوت کے طور پیش کیا تھا ۔ اتفاق سے مسجد اقصیٰ کالارڈ پادری بھی اس روز شاہی دربار میں موجود تھا ۔ وہ بول اٹھا مجھے اس بات کا علم ہے ۔ اس نے بتایا کہ میں ہر رات مسجد اقصیٰ کے تمام درازے بند کردیتا ہوں ۔ اس رات ہزار کوششوں کے باوجود صدر دروازہ بند نہ ہوتا تھا ۔ مسجد کے تمام خا دموں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر سب بے سود ۔ آخر ایک بڑھئی کو بلایا گیا ۔ اس نے مغز کھپائی کے بعد کہا یوں لگتا ہے کہ اوپر سے عمارت کے دبائو کی وجہ سے دروازہ بند نہیں ہوتا ۔ مگر سردست کچھ نہیں ہوسکتا ۔ صبح تک انتظار کرو ۔ خرابی کا پتہ لگالیں گے ۔لارڈ پادری کا بیان ہے کہ اسپر ہم مجبوراً دروازہ اسی حالت میں کھلا چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔ صبح سویرے جب ہم مسجد واپس لوٹے تو ہمیں بے حد حیرت ہوئی کہ دروازہ خود بخود ٹھیک ہو چکا تھا ۔ مسجد کے قریب میں نے ایک سوراخ بھی دیکھا جو کسی سواری کے جانور کی لگام باندھنے کا نشان دکھائی دیتا تھا ۔ یہ حیرت انگیز واقعہ مجھے سمجھ آگیا تو میں نے موقع پر موجود اپنے ساتھیوں سے کہا : ’’ رات دروازے کا کھلا رہنا صرف اسی نبی کے لئے تھا جس کی بشارت حضرت یسوع مسیح علیہ السلام نے دی تھی ۔یقیناًوہ رات یہاں تشریف لائے ہونگے اور یہاں نماز پڑھی ہوگی ۔‘