جب سے بجلی کے ہوشربا بل عوام کو دیے گئے ، تب سے ہی ہر طرف ایک ہی شور ہے کہ کتنا بل آ یا ؟ کتنا بل آ یا ؟
حکومتِ وقت نے بجلی کی قیمت میں ناقابلِ یقین اضافہ کیا کہ بل دیکھ کر اچھے خاصے ، متمول افراد بھی سکتے میں آ گئے تو غریب کا کیا حال ہوا ہو گا ؟
اس کی ایک جھلک گھریلو ملازمین کی صورت میں نظر آ ئی!! اکثر گھریلو ملازمین نے اپنے اپنے مالکان سے ادھار کیا جبکہ کئی ایک نے اپنی ضروریات زندگی کی اشیاء بیچ کر ان ہوشربا بلوں کو ادا کیا !
یعنی کیا یہ کوئی سوچ سکتا ہے کہ وہ شخص جس کی کمائی ہی 20 ہزار ہے ، اس کا 18 ہزار بل صرف بجلی کی مد میں آ جائے!!!
وہ بجلی کا بل ادا کرے یا راشن لائے!!!
ہماری حکومت و سیاست دانوں کو اگر ایک دوسرے کی ذاتی زندگی کی تشہیر سے فرصت مل جائے تو عوام کی حالتِ زار پر بھی ایک نگاہِ غلط ڈال لیں !!
پٹرول کی قیمت تو خیر عرصے سے اونچی اڑان ہی اڑ رہی ہے تاہم حالیہ بجلی کے بلوں نے اسے بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے !!!
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم عوام پر یہ ٹیکسوں کے انبار لاد دیں اور خود ایک خاص طبقہ بیٹھ کر مفت کی بجلی ، پٹرول پر عیاشیاں کرتا رہے ؟؟؟
عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے اعلان تو کیا گیا ہے کہ اشرافیہ سے بھی بجلی و پٹرول کی قیمت وصول کی جائے گی لیکن حقیقت ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا ہو گا کچھ بھی نہیں !!!
پچھلے ایک دو سال میں معیشت کی زبوں حالی پر جب بھی عوام نے ردعمل کا اظہار کیا تو حکومت کی جانب سے یہی یقین دیانی کرائی گئی کہ اشرافیہ سے بھی مفت پٹرول و بجلی کی سہولیات واپس لے لی جائیں گی تاہم حقیقت یہی ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔۔۔۔
ایسا کرنا ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ طبقہ اشرافیہ کی سہولیات پر ہاتھ ڈالنے کا مطلب حکومت سے جدائی ہے اور یہ ہمارے مطلب پرست حکمران کبھی نہیں چاہیں گے !!
صورتحال کو دیکھا جائے تو ہماری اکثریت نے اس معاملے پر بھی اپنی ازلی بے حسی کا ثبوت دیا اور خاص کر مڈل و اپر مڈل کلاس نے طاقتور لوگوں کے سامنے کبوتر بن جانے کا فیصلہ کیا اور جو دو چار لوگ اس صریح نا انصافی کے خلاف آ واز اٹھا رہے ہیں ان سے تعاون نہیں کیا اور نیوٹرل رہنے پر اکتفا کر لیا۔۔۔
دوسری جانب کچھ طبقوں کی جانب سے سوشل میڈیا مہم اور فیس بک ، انسٹا گرام ٹرینڈ بھی شروع کیے گئے جو حکومت پر دباؤ ڈالنے کا بڑا ذریعہ بھی ہیں تاہم فی الحال تو ہماری حکومت نے کوئی خاص کاروائی نہیں کی ۔۔۔
ادھر ہمارے پٹھان بھائیوں نے اس نا انصافی پر ہتھیار اٹھائے اور میٹر کاٹنے والے کو بھگا دیا تو ہمارے کشمیری بھائیوں نے مساجد میں اعلان کرا دیا کہ کوئی شخص بجلی کا بل ادا نہ کرے اور میٹر کاٹنے والے کے خلاف قانونی کاروائی کرانے کا عندیہ بھی دے ڈالا۔۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری حکومت نے اس پر صرف باتیں کیں یا کوئی ایکشن بھی لیا ؟؟
جس کا جواب ہم سب جانتے ہیں !!
میرے نزدیک تو اس کے لیے ایک ہی لائحہ عمل ہے کہ جس طرح دیگر ممالک میں تمام بنیادی سہولیات و ٹیکسس عوام و خواص دونوں پر لاگو ہوتے ہیں اسی طرح ہمارے ملک میں بھی سارا بوجھ صرف عوام پر ہی ڈالنے کے بجائے ، طبقہ اشرافیہ سے بھی مکمل بجلی کا بل اور پٹرول کی رقم وصول کی جائے ۔۔بجلی کے بلوں میں فضول ٹیکس مثلاً ٹی وی ، ریڈیو وغیرہ کے ، ختم کیے جائیں اور عوام کو اتنا ہی بل دیا جائے جتنی بجلی انہوں نے استعمال کی اس کے ساتھ ساتھ بجلی کے میٹر چیک کرنے کا بھی باقاعدہ مستقل بنیادوں پر طریقہ کار بنایا جائے جس میں شفافیت بھی موجود ہو۔۔۔بجلی کے بلوں میں اضافے کا ایک سبب میٹر کی غلط ریڈنگ بھی ہے ۔۔۔ میٹر ریڈنگ گھر کے افراد کے سامنے کی جائے اور پھر اس کا کوئی ڈیجیٹل انتظام بھی کیا جائے جس سے بجلی کی کھپت اور اس کے میٹر حقیقی تاریخ کے اعتبار سےدرج کی جائیں ۔۔۔
باقی رہی بات حکومت کی تو شاید ہماری حکومت اس بات پر توجہ نہ ہی دے تاہم ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی بساط بھر کوشش کرتے رہیں اور پھر نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں !
