”اس کی عمر گیارہ سال سے زیادہ نہ تھی، لیکن اس کا چہرہ اس کی عمر کے مقابلے میں بہت سنجیدہ تھا۔ اس کی بڑی سیاہ، چمک دار آنکھوں سے اُس کی غیر معمولی ذہانت مترشح تھی، تاہم معظم علی کے نزدیک وہ ایک کمسن بچہ تھا۔
معظم علی کا خیال تھا کہ ایک کمسن لڑکے کو مطمئن کرنے میں اسے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔لیکن شہزادے کے غیر متوقع سوالات کے جواب میں اُسے میدان ِجنگ کی تمام تفصیلات اور جُزیات پر تبصرہ کرنا پڑا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بعد کاغذ اِن بے شمار نشانات اور لکیروں سے بھر چکا تھا جن سے فریقین کے پڑاؤ، ان کی رسد، کُمک کے راستوں، افواج کی صفوں،توپ خانوں اور مختلف معرکوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔
نقشہ ختم کرنے کے بعد ازاں معظم علی یہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ پانی پت کی جنگ کی پوری تاریخ بیان کر چکا ہے۔ جب کمسن شہزادہ نقشہ لے کر معظم علی کا کا شکریہ ادا کرنے کے بعد بعد وہاں سے چلا گیا تو اس نے اپنے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: خدا اس لڑکے کو نظر بد سے بچائے، بعض اوقات اس کے سوالات سے مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میں اپنے سپہ سالار سے باتیں کر رہا ہوں،اس لڑکے سے باتیں کرنے کے بعد میں یہ محسوس کرتا ہوں ہو کہ ایک دن میرے جیسے ہزاروں انسان اِس کی رفاقت میں میں جینا اور مرنا اپنے لیے باعث ِ سعادت سمجھیں گے۔“
نسیم حجازی کے ناول”معظم علی“میں سلطان فتح علی خان ٹیپوؒ کے بارے معظم علی کے یہ تاثرات آج بھی۔۔۔جی ہاں! تقریباََ سوا دو سو سال بعد آج بھی ایک مُسلِّمہ حقیقت ہیں۔ آج بھی میری طرح ہزاروں، لاکھوں انسان سلطان شہید سے عقیدت رکھتے ہیں اور کیوں نہ ہو کہ بلاشبہ سلطان کی سیرت و کردار کے بہت سے حسین پہلوہیں، وہ بیک وقت وقت ایک اولوالعزم سپاہی، عظیم سپہ سالار،مصلح اور اعلی پائے کے منتظم تھے۔
سلطان فتح علی خان ٹیپو نے ۶۲ دسمبر۲۵۸۱ء کو اقتدار سنبھالنے سے لے کر کر۴ مئی۹۹۷۱ء کو اپنی شہادت تک اِن سترہ، اٹھارہ سالوں میں صدیوں سے جہالت اور افلاس کی تاریکیوں میں گھرے میسوری عوام کو ایک بہادر اور باوقار قوم بنا دیا۔سلطان فتح علی خان ٹیپو کی قیادت میسور ہندوستان ہی نہیں مشرق کی ایک مضبوط اور خوشحال ترین ریاست تھی۔ جس کی بنیاد اُن کے والد حیدر علی نے رکھی تھی۔
سلطان ٹیپوؒ نے اپنی ریاست اور حکومت کے ہر شعبہ بشمول زراعت و صنعت گِراں قدر اصلاحات متعارف کرائیں۔بقولِ نسیم حجازی ”شیر میسور کی فتوحات صرف جنگ کے میدان تک محدود نہ تھیں بلکہ وہ ایسے حکمران، عالِم، مُفَکِّر اور مصلح تھے۔ جس کے دل و دماغ کی وسعتوں میں اسلامیانِ ہند کے ماضی کی عظمتیں،حال کے ولولے اور مستقبل کی آرزوئیں سما گئی تھیں۔ سلطان ہمیں زندگی کی ہر دوڑ میں اپنے وقت سے کئی منزلیں آگے دکھائی دیتا ہے۔
فوج کی تنظیم نَو، سڑ کوں کی تعمیر، تعلیمی ترقی کے عظیم منصوبے، صنعت و حرفت کی ترقی، دریاؤں پر بند باندھنا، نہریں کھدوانا،بنجر زمینوں کو آباد کرنا،نئے سکولوں کا اجراء اور ڈاک کا منفرد نظام سلطان شہیدؒ کے وہ عوام دوست منصوبے اور کارنامے ہیں جن کی بدولت میسور(ہندوستان کا موجودہ صوبہ کرناٹک)اناج، گنے،ریشم اور کپاس کی پیداوار میں خود کفیل تھا۔
زرِ مبادلہ کے حصول لیے سلطان ٹیپوؒ نے ساحلی علاقوں میں ہتھیار، گھڑی، کاغذ اور کپڑا سازی کے کارخانے لگوائے۔ سلطانؒ کی ان دور َرس، عوام دوست پالیسیوں نے انہیں جہاں عوامی اور فوجی حلقوں میں میں زبردست پذیرائی بخشی، وہیں ریاستِ میسور کو بھی نہ صرف ہندوستان بل کہ مشرق کی ایک طاقتور اور اور خوشحال اسلامی فلاحی ریاست بنا دیا۔ سلطان فتح علی خان ٹیپوؒ نے ریاست میں شراب خانے،جواخانے اور بازارِ حُسن بند کر کے اپنے نوجوانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے اقدامات کیے۔
آپ خود حافظ قرآن اور قاری تھے۔فارسی، عربی اور اردو زَبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ آپ نے میسور میں ایک یونیورسٹی ”جمیع الامور“ قائم کی جہاں دینی اور جدید دنیاوی و سائنسی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔امپریل لائبریری آف سرنگا پٹم سلطان کی علم دوستی کی دلیل ہے۔
سلطان نے مسجد ِاعلی تعمیر کرائی، کہا گیا کہ پہلی نماز کی امامت وہ کرائے جو صاحب ترتیب ہو یعنی اس کی فرض نماز بھی کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔ اس موقع پر خاص و عوام سبھی موجود تھے۔ علماء و صلحاء بھی، مفتیان بھی لیکن۔۔۔اس شرط کے بعد کوئی بھی امامت کے لئے آگے نہ بڑھا۔ پھر آگے بڑھا سلطان ٹیپو شہید۔۔۔ فخرِ ملت اسلامیہ
میرا رَاز فاش کر دیا، یہ کہہ کر سلطان نے نماز شروع کی اور ایسی رِقَّت آمیز تلاوتِ کلام ِپاک فرمائی کہ خود بھی روئے اور مقتدیوں کو بھی رُلا یا۔ سلطان ٹیپوؒ شہید ایکعاشق رسولﷺ اور پیغمبر ِ انسانیت کے سچے پیروکار تھے، یہی وجہ تھی کہ میسور کے اکثریتی لوگ جو غیر مسلم تھے مگر پھر بھی سلطان نے ریاست کے لئے ہر جگہ ہر موقع پر پر سلطان کے دوش بدوش رہتے مجھے آخر وہ کیا وجہ تھی جس نے ان لوگوں کے دل و دماغ میں اتنا بڑا انقلاب برپا کر دیا تھا تھا دل یہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق سلطان ٹیپو کی جانب سے عدل و انصاف کی بلاامتیاز فراہمی نے نے ریاست کے غیر مسلم عوام کو بھی سلطان پاکستان اور ریاست کا کردار بنا دیا تھا تھا صحت اور کاروبار کسا مواقع حاصل تھے آپ نے ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کر رکھے تھے تھے اٹھارہویں صدی کے نصف تک ک جب انگریز انگریز پلاسی اور بکسر کی جنگ کے بعد بعد کلکتہ سے لے کر لکھنؤ تک ک اپنی فتوحات کے جھنڈے نصب کر رہے تھے تھے اور ہندوستان پر مغلیہ حکومت برائے نام رہ گئی تھی تھی اس وقت سرنگا پٹم سے مدراس موجودہ چنائی تک اور منگلور سے بنگلور تک پھیلی ریاست میسور اور میں سلطان حیدر علی علی اور ان کے فرزند سلطان فتح علی خان کی تلواروں کے سامنے فرنگی جارحیت کا سیلاب رک گیا تھا انگریز بھی جانتے تھے تھے کہ سلطان فتح علی خان ٹیپو و ان کے راستے میں آخری چٹان ہے ہے جس کے بعد ہندوستان پر ان کی حکومت ہوگی اور تاریخ نے ثابت کیا کہ سلطان ٹیپو کی کی شہادت کے بعد مرہٹے ے اور نظام دیگر چھوٹے بڑے راجاؤں کے ساتھ مل کر اور ٹیپو سے دگنافوج بنا کر بھی انگریزوں کو چند ماہ سے زیادہ نہ روک سکیجنھیں سلطان ٹیپو اورسلطان حیدرعلی نے نصف صدی تک محدودکیے رکھاتھا سلطان ٹیپو کے ساتھ میسور کی پہلی دو جنگوں میں شکست کے بعد میں جب فرنگی افواج غداروں اور ملت فروشوں کی مدد سے سیقلعے میں داخل ہوگئیں تو سلطان کے ایک وفادار وزیرنے انہیں محفوظ راستے سے نکل کر کر نئے سرے سے اپنی فوج کو کو منظم کرنے کا مشورہ دیا تو سلطان ٹیپو شہید غضبناک ہو گئے۔ آپ نے جان بچا کر کر فرار کی بجائے اپنے وفادار سپاہیوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان،جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔تبھی آپ نے وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا جو دنیا بھر میں سلطان ٹیپوؒ کی شخصیت کی پہچان اور غیرت و عزت کا استعارہ ہے۔
”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔“
