99

بندوں میں خدا دیکھ رہے ہیں/شاعری/مہوش احسن

شاعری/مہوش احسن

جو دیکھنے والے ہیں بجا دیکھ رہے ہیں

اس واسطے بندوں میں خدا دیکھ رہے ہیں

جدت میرے اسلوب سے گھبرانے لگی ہے

سب مجھ پہ یہ مصروں کہ عطا دیکھ رہے ہیں

تسلیم کیا سارے ہی ہیں دیکھنے والے

ہم لوگ زمانے سے جدا دیکھ رہے ہیں

اک اشک ابھی دل سے سفر کرنے لگا ہے

ہم آنکھ کے حجرے میں دیا دیکھ رہے ہیں

مطلب کے بھروسے پہ تعلق کا بسیرا

اور لوگ ابھی تک بھی وفا دیکھ رہے ہیں

جنگل کے مقدر میں کوئی آگ لکھی ہے

ہم آگ کے حصے میں ہوا دیکھ رہے ہیں

شہہ رگ کی رفاقت کا مزہ اپنی جگہ پر

ہم عرش کے اس پار خدا دیکھ رہے ہیں

آمین کو طعنوں کی طلب نوچ رہی ہے

ناکام جو لوٹی ہے دعا دیکھ رہے ہیں

ہر پھول کو مصرعے کے لبادے کی طلب ہے

ہونٹوں کی طرف نغمہ سرا دیکھ رہے ہیں

میں ان کی طرف دیکھ کے خاموش ہوں مہوش

اور سوچ رہی ہوں کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں