وائز کے زیر اہتمام امن گھر فیصل آباد سیمینار ریلی گھریلو ملازمین کے خلاف گھناؤنے جرائم بند کرو. پنجاب گھریلو ملازمین ایکٹ، 2019 پر سختی سے عملدرآمد کا مطالبہ,
سیمینار وریلی سے خطاب کرتے ہوئے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیبر یاسر عرفات جپہ ،شبانہ پرویز بھٹی ، پروین لطیف، زرینہ ارشاد انصاری ،یاسمین طاہرہ ، بابا لطیف انصاری ودیگر مقررین نے ملک بھر میں ڈمیسٹک ورکرز پر تشدد کے واقعات پر خطاب کیا ملک بھر میں بچوں سے گھریلو مزدوری کروانا اس قدر عام ہو چکا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر چوتھے گھرمیں بچے گھریلو ملازم کام کرتے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اور اس سے بھی زیادہ قابل فکر امر یہ ہے کہ بچوں کو بہ طور گھریلو ملازمین چاردیواری کے اندر خاموشی سے زیادتی، کا نشانہ بنایا جاتا ہے تشددکیا جاتا ہے اور بعض صورتوں میں قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ تسلیم شدہ قانونی عمر سے کم عمر بچوں کو ملازمت دی جاتی ہے، اور کوئی ادارہ ایسا نہیں جو اس غیر قانونی اور غیر انسانی ملازمت کی روک تھام کر سکے یا قانون کی خلاف ورزی کرنے والے گھرانوں کے خلاف کارروائی کر سکے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بچوں کو بہ طور گھریلو ملازم معاشی ، جسمانی اور جنسی استحصال کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، صورتحال کی سنگینی کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ متعلقہ حکام ایکشن لینے سے گریزاں پائے جاتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بچوں خاص طور پر کم عمر بچوں کو گھریلو ملازم رکھنے کے عمل کو ہر سطح پر جرم گردانا جائے اوربچوں کو گھریلو ملازم رکھنے والے گھرانوں کے خلاف مؤثر قانون سازی کر کے بچوں کو استحصال سے نجات دلائی جائے۔
حال ہی میں کمسن گھریلو ملازمہ رضوانہ پر ہونے والا بہیمانہ تشدد اس ملک میں کوئی پہلا سانحہ نہیں۔۔۔۔
سندھ کے علاقہ رانی پور کی فاطمہ کے ننھے ننگے جسم کی تڑپتی وڈیو کہیں آتش زدہ گرجا گھر کہیں رضوانہ کی ناخن سے زخمی آنکھیں پھر ہر طرف بلوائیت کے مناظر اپ کو نہیں لگتا ہم تماش بین ہجوم کے اخری درجے پر پہنچ گئے ہیں بات صرف ویڈیو لیک تک نہیں رہ گئی ہماری ہوس انسانیت سوز ہو گئی ہے ہم بس تماش بین بن چکے ہیں
انصاف کہاں ہے؟
احساس کہاں ہے؟
انسانیت کہاں ہے؟
کسی کی جان, مال, عزت ,بیٹی محفوظ ہے؟ ہم ماضی میں ہونے والے کئی واقعات کو بہ طور حوالہ یاد کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2017 میں ایک سیشن جج کے ہاں 10 برس کی طیبہ کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔۔۔ اسی طرح 2019 میں 16 برس کی گھریلو ملازمہ اپنے مالکان کے ہاتھوں ہونے والے تشدد کے نتیجے میں قتل ہو گئی۔ اسی طرح 2020 میں کمسن گھریلو ملازمہ 8 سالہ زہرہ پر تشدد کیا گیا اور وہ معصوم جان کی بازی ہار گئی۔
وائز کے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق جنوری 2019 سے فروری 2021 تک صرف پنجاب میں گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے خلاف جسمانی اور جنسی تشدد کے 74 کیس رپورٹ کئے گئے۔ مذکورہ 25 مہینوں کی مدت کے دوران 15 بچوں کو تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جبکہ 59 بچے شدید جسمانی تشدد کا شکار ہوئے۔ تاہم یاد رہے کہ یہ صرف رپورٹ ہونے والے کیس ہیں، جن کو بہ وجوہ چھپایا جانا ممکن نہیں رہا تھا ، اس لئے ہم بہ طور ڈومیسٹک ورکرز یونین مفروضہ قائم کرسکتے ہیں کہ گھریلو ملازم بچوں کے خلاف معاشی، جسمانی اور جنسی استحصال کے شرمناک واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اور اس سے بھی کہیں زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ کمسن گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کے رپورٹ ہونے والے مذکورہ 74 واقعات میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ پائی گئی ہے جنکی عمریں 7 سے 16 برس تک تھیں۔ ہم بہ آسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امراء اور اشرافیہ کے گھروں میں گھریلو ملازمیں بچیوں کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہو گا ؟ چونکہ ان بچیوں کے غربت کے مارے والدین پولیس کو رپورٹ کرنے کا حوصلہ ہی نہیں کر پاتے اور عرف عام معافی تلافی اور صلح صفائی سے کام لینے پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں۔
وائز کی رپورٹ کے مندرجات اس امر کی گواہی دے رہے ہیں کہ ہماری معزز اور محترم اشرافیہ جو اپنے گھروں میں کمسن بچوں کو ملازم رکھتی ہے ، اس کا رویہ ۔۔۔۔ کس قدر شرمناک اور بہیمانہ ہے ۔ جبکہ ہمارے حکومتی ادارے اسی قدر بے حس بھی ہیں ۔ واضح رہے کہ پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019 کی شق 3 کے تحت کسی بھی جواز کے تحت 15 برس سے کم عمر بچوں کو کسی بھی حیثیت میں گھریلو ملازم رکھنے کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ کمشنر سوشل سیکورٹی کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں تقریبا 675,000 گھریلو ملازمین ہیں جن میں اکثریت غریب خواتین اور بچوں کی ہے۔ لیبر قوانین اور بچوں کے تحفظ پر مبنی قوانین کے باوجود صورتحاک کی سنگینی کی وجہ یہ ہے کہ کوئی سرکاری ادارہ یا محکمہ ایسا نہیں ہے جو اشرافیہ کے گھروں میں کام کرنے والے بچوں کو رجسٹر کرتا ہو اور بعد ازاں قوانین کے تحت انکی مانیٹرنگ کا ذمہ لیتا ہو۔
مذکورہ صورتحال کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے بہ طور معاشرہ ۔۔۔۔ کم سن بچوں کو ایسی بے رحم اشرافیہ کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے جو قوانین کا احترام کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتی اور اپنے گھروں میں ملازم کمسن بچوں کا استحصال کرتی ہے اور ان سے غلاموں سے بھی بدتر سلوک کرتی ہے، یہ ریاست کی مکمل ناکامی ہے ۔۔۔ ہم یہ سوچنے کو تیار کیوں نہیں ہیں کہ آخر کیوں ؟ وہ بچے ۔۔۔ جنہیں اس عمر میں سکول جانا چاہیئے ۔۔۔۔ وہ امراء اور اشرافیہ کے گھروں میں بہ طور ملازم کام کر رہے ہیں ! ان کا تعلیم حاصل کرنے کا آئینی حق کہاں ہے؟ یاد رہے کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائیزیشن کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازمت دور جدید میں غلامی کی ایک جدید شکل کے طور پر موجود ہے اورر عالمی برادری 2030 تک اس کے خاتمے کی ذمہ دار ہے اور پاکستان بہ طور ریاست ۔۔۔ (ہدف 7-8) عالمی اہداف کو حاصل کرنے کی ضمانت دے چکا ہے۔
ہمیں اس حقیقت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی فوری ضرورت ہے کہ گھروں میں چائلڈ لیبرغیر قانونی ہے.بہ طور ریاست اور معاشرہ ہمارا فرض ہے کہ ہم چائلڈ لیبر کی وسعت کے بارے میں قابل اعتماد ڈیٹا مرتب کریں جس میں – مقام، جنس اور سماجی آبادیاتی خصوصیات کے لحاظ سے درجہ بندی بھی شامل ہو اور ہمیں یہ بھی معلوم رکھنا ہوگا کہ چائیلڈ لیبر سمیت گھروں میں کام کرنے والی لیبر بہ طور خاص بچے اور بچیاں کس حال میں ہیں اور انکے آئینی قانونی اور سماجی حقوق کی خلاف ورزی کون کر رہا ہے اور کمسن بچوں پر گھروں میں ہونے والا تشدد قابل تعزیر کیوں نہیں ہے اور مجرم سزا سے کیوں بچ رہے ہیں؟ ہمیں بہ طور ریاست عالمی اہداف کی توثیق کے بعد C- 189 پر سختی سے عملدرآمد کرنا ہوگا تا کہ گھروں میں کام کرنے والے بچوں بالخصوص بچیوں کو غلامی سے نجات دلائی جا سکے۔ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں۔ رضوانہ کے خلاف تشدد کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اور اس غربت زدہ بچی کی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت اس ملک میں 16 برس سے کم عمر بچوں کو ہر صورت میٹرک تک مفت تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وقت کی ضرورت ہے کہ ایک بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلائی جائے اور تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو اس حوالے سے آگاہ کیا جا سکے۔ کہ پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019 کے نفاذ کے لئے طریقہ کار طے کیا جائے اور خاص طور پر آجر،عدلیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں ، میڈیا، ، پولیس اور چلڈرن رایئٹس کمیشن کی شراکت کے ساتھ خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی جایئں اور ان کمیٹیوں کو پارلیمنٹ کے ذریعے جواب دہ بھی ٹھہرایا جائے۔ تاکہ گھریلو ملازم بچوں کے حقوق کا دفاع ممکن بنا جاسکے۔
