بچوں کی تعلیم و تربیت(قسط نمبر2/تحریر/مولانا محمد افضل کاسی ٹرینر و کالم نگار 242

بچوں کی تعلیم و تربیت(قسط نمبر1)تحریر/مولانا محمد افضل کاسی(ٹرینر و کالم نگار)

ماں باپ کی ابتدائی ذمہ داریاں
جمیل میرے پاس آیا اور کہنے لگا مفتی صاحب بچہ کے کان میں آذان دینی ہے میں نے کہا کہ خود دے دو تو جواب دیا کہ مجھے نہیں آتا۔ اسی طرح اکثر لوگ مجھ سے سے بچوں کی تربیت کے حوالے سے سوال کرتے رہتے ہیں اس وجہ سے مناسب لگا کہ پہلے بچوں کی تعلیم و تربیت پر قسط وار تحریریں لکھوں۔ زیر نظر تحریر اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے امید ہے پسند آئے گی اپنے قیمتی مشوروں سے آگاہ کرتے رہیں۔
نومولود بچہ کے کان میں آذان:
رسول اللہ ﷺ کےآزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو (اپنے نواسے حسن بن علی کے کان میں آذان پڑھتے ہوئے دیکھا) (جب آپﷺ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ہاں ان کی ولادت ہوئی۔
ایک دوسری حدیث سے جو ” کنز العمال” میں مسند ابویعلی موصلی کی تخیریج سے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے معلوم ہوتاہے کہ آپ نے نومولود بچہ کے داہنے کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھنے کی تعلیم و ترغیب دی اور اس برکت اور تاثیر کا بھی ذکر فرمایا کہ اس کی وجہ سے بچہ اُم الصبیان کے ضرر سے محفوظ رہے گا (جو شیطانی اثرات سے بھی ہوتا ہے)۔
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نومولود بچہ کا پہلا حق گھر والوں پر یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کے کانوں کو اور کانوں کے ذریعہ اس کے دل و دماغ کو اللہ کے نام اور اس کی توحید اور ایمان و نماز کی دعوت ہ پکار سے آشنا کریں۔
تخیک اور دعائے برکت:
رسول اللہ ﷺ کی معرفت اور صحبت کے نتیجے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو آپﷺ کے ساتھ عقیدت کا جو تعلق تھا اسکا ایک ظہور یہ بھی تھا کہ نو مولود بچے آپﷺ کی خدمت میں لائے جاتے تاکہ آپﷺ ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرفائیں اور کھجور یا ایسی ہی کوئی چیز چبا کر بچے کے تالو پر مل دیں اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیں جو خیر و برکت کا باعث ہو۔ اس عمل کو تخیک کہتے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ اپنے بچو کو رسول اللہﷺ کے پاس لایا کرتے تھے تو آپﷺ ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرماتے تھے۔
کتب حدیث میں “تخیک” کے بہت سے واقعا ت مروی ہیں ۔ ان سے معلوم ہوا کہ جب کسی گھرانے میں بچہ پیدا ہو تو چاہیئے کہ کسی مقبول اور صالح بندے کے پاس اس کو لے جائیں اس کے لیے خیر و برکت کی دعائیں بھی کرائیں اور “تخیک” بھی کرائیں۔ یہ ان سنتوں میں سے ہے جن کا رواج بہت ہی کم رہ گیا ہے۔
عقیقہ کرنا:
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کی خوشی میں ساتویں دن لڑکے کی پیدائش پر دو(2) بکرے اور لڑکی کی پیدائش پر ایک (1) بکری یا ایک (1) بکرے کی قربانی کرنا عقیقہ کہلاتا ہے۔ البتہ یہ عقیقہ فرض و واجب کی طرح لازمی نہیں بلکہ استحباب کے درجے میں ہے۔
اور لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ میں دو (2) بکریوں کی قربانی کرنا بھی کچھ ضروری نہیں ہے ہاں اگر وسعت ہو تو دو (2) قربانی بہتر ہے ۔ ورنہ ایک کافی ہے۔
چانچہ آپ علیہ السلام نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عقیقہ میں ایک ایک مینڈھے کی قربانی کی ہے۔
سر منڈوانہ:
اگر وسعت ہو تو ساتویں دن بچے کے بالوں کو منڈوا کر ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرے یہ بھی مستحب ہے۔
حضرت علی بن طالب رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ !1
رسول اللہﷺ نے حسن رضی اللہ عنہ کے عقیقہ میں ایک بکری کی قربانی کی اور آپﷺ نے اپنی (صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ اس کا سر صاف کر دو اور بالوں کے وزن بھر چاندی کا صدقہ کر دو ہم نے وزن کیا تو وہ ایک درہم کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم تھے۔
سرپر زعفران لگانا:
بچے کا سر منڈوانے کے بعد اس کے سر پر زعفران لگانا بھی حدیث سے ثابت ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہم لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب کسی کے لڑکا پیدا ہوتا تو وہ بکری یا بکرا ذبح کرتا اور اس کے خون سے بچے کے سر کو رنگ دیتا، پھر جب اسلام آیا تو (رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کے مطابق) ہمارا طریقہ ہو گیا کہ ہم ساتویں دن عقیقہ کی بکری یا بکرے کی قربانی کرتے اور بچے کا سر صاف کرا کے اس کے سر پر زعفران لگا دیتے ہیں۔

اچھا نام رکھنا:
بچے کا اچھا نام رکھنا بھی ایک حق ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے۔
” حضرت ابو لدرداء رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے نام سے پکارے جاؤ گے (یعنی پکارا جائے گا فلاں بن فلاں) لہٰذا تم اچھے نام رکھا کرو”
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کے ساتھ ساتویں چن بچے کا نام بھی رکھا جائے ۔ لیکن بعض احادیث سے آپﷺ کا عمل بعض بچوں کا نام پہلے ہی دن رکھنا معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا پیدائش کے دن یا ساتویں دن سے پہلے بچے کا نام رکھنے میں مضائقہ نہیں/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں