وقتی مشکلات و تکالیف اور آزمائشیں قوموں پر آتی رہتی ہیں, ایسی قیامتیں بھی کبھی کبھی ٹوٹتی ہیں کہ ہر چیز برباد ہوتی محسوس ہونے لگتی ہے۔ جانوں کے لالے تک پڑ جاتے ہیں۔ کبھی کچھ راستہ سجھائی نہیں دیتا اور سفر لمبا ہی لمبا ہوتا چلا جاتا ہے۔
ایک گوشت پوست سے بنے زندہ انسان کی تمام تگ و دو کا اہم اور بنیادی مقصد اس کی ضروریات زندگی اور وسائل کا حصول ہے۔ اسے اپنے جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے کیلیے روٹی, تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور موسموں کے تغیر و تبدل سے بچنے کیلیے مکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک مہذب اور منظم سماج میں رہتے ہوئے کوئی بھی انسان یہ ضروریات اپنی جسمانی ذہنی اور علمی استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے پورا کرتا ہے۔ جب کہ ایک اجتماعی معاشرے یا سماج کا متفقہ نظام اسے اس کی ان بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے موافق ماحول, مناسب سہولیات اور متنوع وسائل مہیا کرتا ہے۔ یقیناً جب ایسے تمام معاشروں یا سماجوں کی اجتماعی اکائی یعنی ایک ریاست کسی انسان کی ان بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو بلاشبہ وہاں کے رہنے والوں انسانوں میں حبس گھٹن, اضمحلال, دل شکستگی اور برداشتہ خاطری عام ہو جاتی ہے۔
پتھر کے زمانے سے لے کر آج تسخیرِ خلا کے دور تک ہر ایسے اجتماعی معاشرے یا سماج کا یہی قصہ رہا ہے۔ جب انسان کے پاس روٹی نہ رہے, تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا میسر نہ ہو تو ہر نظام، ملک، مذہب، قوم تہذیب غرض کہ ہر طرح کے اقدار کی عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے۔ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے اور انسان جو بس میں ہو وہ کر جاتا ہے۔
اکیسویں صدی کے اس شاندار ڈیجیٹل دور میں بحیثیت پاکستانی اگر ہم سوچیں کہ ہم اور ہماری ریاست آج کہاں کھڑی ہے تو شاید ایک نہایت دردناک حقیقت کھل کر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ آج ہم دہائیوں کے سب سے گہرے معاشی سماجی اور سیاسی بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ غربت, بے روزگاری, بدامنی چھینا چھپٹی, پینے کیلیے صاف پانی کو ترستی مخلوق، فٹ پاتھ اور کشتیوں میں زندگی گزارنے والے لاکھوں لوگ ہماری معاشرتی و اقتصادی ناہمواری کی چیرہ دستیوں پر ماتم کناں ہیں۔ آئے روز کی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشی تفکرات نے عام عوام اور بالخصوص نوجوان نسل کو متفرق ذہنی مسائل میں مبتلا کر دیا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ملک کے طول و عرض سے مہنگائی, بے روزگاری اور غربت کے سبب کسی کی خود کشی کی خبر نہ ملے, کوئی اخبار, نیوز بلیٹن یا سوشل میڈیا چینل ایسا نہیں دِکھتا جس میں معاشی گراوٹ, مالی مسائل اور بدحالی پر عام لوگ بالخصوص نوجوان دہائیاں دیتے, سینہ کوبی کرتے, روتے پیٹتے دکھائی نہ دیتے ہوں۔ ان معاشی مسائل اور سماجی ناہمواریوں کے سبب پڑھے لکھے نوجوان یا تو مایوسی اور قنوطیت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ یا پھر بے راہروی, منشیات کی لت، چوری، تشدد اور ملک دشمن عناصر کے لیے خام مال بن کر سامنے آتے ہیں, اور ملکی سالمیت کے لیے بڑا خطرہ بن جاتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت 70 لاکھ نوجوان بیروزگار ہیں۔ اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہوا کہ ملک میں ہر دس میں سے ایک نوجوان بے روزگار ی کا سامنا کر رہا ہے۔ انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق بھی پاکستان میں 15 سے 24 سال کے 10.8 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں اور 36 فیصد پڑھے لکھے پاکستانی نوجوان اپنے مستقبل سے ناامید اور رنجیدہ ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا پڑھا لکھا باصلاحیت نوجوان جو اس معاشرتی وجود میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ان کٹھن ملکی حالات اور دگرگوں نفسیاتی کیفیات کے باعث افسردگی اور مایوسی کا شکار ہو کر انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہے, جس کی وجہ سے خود کشیوں کے رجحان میں آئے روز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ہمارے معاشی اور سماجی ماہرین بھی خود کشی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ مہنگائی، معاشی مسائل، وسائل کا مخصوص طبقات تک ارتکاز، ملازمتوں کے مواقع کم ہونے اور مجموعی اقتصادی صورتِ حال کو قرار دے رہے ہیں۔
یہ صورت حال بحیثیت قوم ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ نسل نو کی رگوں میں دوڑنے والا یہ یاس و اضمحلال اس بات کا اشارہ ہے کہ ہمارا آنے والا کل اچھا نہیں ہو گا, ہمارا ہر ہنر مند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریوں کے انبار اٹھائے بیرون ملک نکلنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ یہ برین ڈرین ہمارے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ تعلیم مکمل کرنے اور ملازمت کے حصول کے درمیانی عرصے میں نوجوان شدید قسم کے ذہنی اور سماجی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ یہ دباؤ ان کی صلاحیتوں پر دور رس منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ چین کے ایک کمیونسٹ راہنما جو این لائی کہا کرتے تھے ” دل برداشتہ نوجوان کا ذہن ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہوا کرتا ہے“۔ بلاشبہ اس لحاظ سے جو این لائی کی یہ بات سو فیصد درست لگتی ہے, کیونکہ ایک پڑھے لکھے نوجوان کی خودکشی اس کے گھر والوں کے لیے کسی ایٹم بم کی تباھی کی مانند ہی تو ہوتی ہے, ساتھ یہ غیر متوقع نوجوان موت معاشرے اور اس کے اجتماعی مزاج پر بھی دورس اثرات مرتب کرتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک تحقیق کے مطابق 10 سے 20 سال کی درمیانی عمر میں نوجوان متعدد جسمانی و جذباتی تبدیلی کے مراحل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے افراد نہ صرف ذہنی و جسمانی بدلاؤ کا شکار رہتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ معاشرتی و معاشی تبدیلیاں بشمول مالی حالات اور لوگوں کا رویہ نوجوان دماغوں پر تیزی سے اثر انداز ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تنگ دستی, معاشی پریشانی, ناروا سلوک نوعمروں کو ذہنی صحت کے مسائل کا شکار بنا دیتا ہے۔ نفسیاتی تندرستی کو فروغ دینا اور نوعمروں کو منفی تجربات سے بچانا بے حد ضروری ہے۔ نوجوانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھنا ایک مثبت معاشرے کی بقاء کے لیے بے حد اہم ہے۔
آج وقت آ گیا ہے کہ ارباب اختیار اس معاملے پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں اور نوجوانوں کے ان مسائل کا ہر ممکن حل نکال کر دیں۔ ملک کے زمینی اور معروضی حقائق کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنائیں, اشرافیہ اور طبقاتی نظام کی مکمل حوصلہ شکنی کی جائے۔ معاشی استحکام لانے کے لیے جو بھی قربانی دینا پڑے, دی جائے۔ معیشت کی مضبوطی کو ہر ممکن طور ہر یقینی بنایا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ہر آنے والی ہر حکومت پہلے والی حکومت کی بنائی ہوئی پالیسیوں کو مسترد کر کے اپنی نئی پالیسی متعارف کرا دیتی ہے۔ ایک یا دو سالہ پلان پر تو گھر نہیں چلتے“ 23 کروڑ کی آبادی والے ملک کو کیسے چلایا جا سکتا ہے؟ یہ المیہ کم نہیں کہ پاکستان میں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کو کبھی بھی وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کے وہ حق دار ہیں۔ ہمارا موجودہ نظام کسی حد تک پڑھے لکھے نوجوان تو پیدا کر دیتا ہے مگر ایک بڑی اکثریت کو وہ تعلیم مل رہی ہے جس کی شاید ان کو ضرورت نہیں, یا اس کا فائدہ نہیں۔ ہمارا موجودہ نظام تعلیم جو ورک فورس پیدا کر رہا ہے، بلاشبہ عالمی سطح پر اس کی کوئی ڈیمانڈ ہی نہیں ہے۔
تعلیم کے شعبے میں متفقہ طور پر گرینڈ پلان کی ضرورت ہے۔ تعلیمی نصاب کو دورِ حاضر کے چیلنجز اور ضروریات کے مطابق مرتب کرنے اور اس میں عملی تربیت کا حصہ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نظام معیشت، نظام سیاست اور نظام تعلیم میں یہ تمام اکھاڑ پچھاڑ نہیں کریں گے تو یقیناً مسائل کے جوار بھاٹے یونہی امڈتے چلے آئیں گے۔
یہاں اس معاملے کا ایک اور پہلو سے بھی جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ ہمیں اس بھنور سے نکلنے کے لیے صرف ارباب اقتدار کی صِدق دلی اور نیک نیتی ہی مطلوب نہیں, خود نوجوانوں کا عزمِ مصمم اور بلند حوصلگی بھی درکار ہے۔ بلاشبہ اس ملک کی نوجوان نسل کو بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ آخر کون سی افتاد پڑی کہ ذرا سے چند معمولی انفرادی و اجتماعی مسائل کو انسان اپنے گلے کا پھندہ بنا لے؟ اپنے نشیمن کی تیرگیوں سے بھاگ کر اغیار کی چکا چوند میں پناہ لے لینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ اپنی اجڑتی ہوئی بستی کو دوبارہ آباد کرنے کی تگ و دو کے بجائے دوسروں کی خوشحال کالونیوں کے طواف کون سی بڑی کامیابی ہے؟ نوجوانوں کا کام تو امید کی شمعیں جلانا ہوتا ہے۔ عزم حوصلے اور فہم و دانش کے اسباب سے اپنے گھر اور اس کے دیوار و در پر صدیوں سے جمی دھول مٹی کو اڑانا اور صاف کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔ خود زخموں سے چُور ہو کر بھی اپنے ہم وطنوں کو مفاد پرست سماج دشمن عناصر سے نجات دلانا ملک و ملت سے وفا نشانی ہے۔
اگر یونہی نوجوان اپنا گھر بار چھوڑ کر جاتے رہے تو یہاں کے اجڑے پجڑے مجبوروں اور لاچاروں کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا؟
اگر چاند گرہن کی اس گہری رات میں سب ہی جگنو چلے گئے تو ایک نئی صبح کے انتظار میں بیٹھے باقی مکینوں کو راستہ کون دکھائے گا؟ بلاشبہ یہ وقت ملک چھوڑ کر ان بے بسوں اور لاچاروں کو درندوں کے حوالے کر کے جانے کا نہیں، یہ وقت اس نظام کو تبدیل کرنے کا ہے۔ پڑھے لکھے اور باشعور نوجوانوں کو خود نظام کی تبدیلی کے لئے میدان میں آگے آنا ہوگا۔ راہ فرار اختیار کرنا آسان ہوتا ہے لیکن حالات بدلنے کے لئے ذمہ داری اٹھانا مشکل۔ کیوں نہ ان اندھیروان کو پاٹنے کے لئے کچھ نئی شمعیں جلائی جائیں۔
ویسے بھی بحیثیت مسلمان ہمارا دین اور ایمان بھی مایوسی کو گناہ اور کفر کا درجہ دیتا ہے۔ قرآن میں اللہ فرماتے ہیں:- ترجمہ
“تم اللَّه کی رحمت سے ناامید مت ہو۔۔”
ایک اور جگہ حوصلہ بڑھایا جاتا ہے:- ترجمہ
رحمتِ پروردگار سے مایوس نہ ہونا کہ اس کی رحمت سے کافر قوم کے علاوہ کوئی مایوس نہیں ہوتا ہے
(سورہ یوسف /87)
اس معاملے میں یہ وقت ان باشعور اور ہوش مند جوانوں کے مثبت کردار کا متقاضی ہے جو ملک و قوم کا خوب درد رکھتے ہیں۔ اور اس کی عظمت و رفعت کے لیے دل و جان سے کوشش کرتے ہیں۔ ملک عزیز پاکستان میں نظام معیشت، نظام سیاست اور نظام تعلیم کو بہتر سے بہتری کی طرف لے جانے کے لیے ایسے ہی نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں اس وقت ایک ایسے گرینڈ آپریشن کی ضرورت ہے جس سے ہر طرح کی دقیانوسیت اور قدامت پسندی پر مبنی آلائشیں اکھاڑ پھینکی جائیں۔ تاکہ اس خطہ ارض کو باقی دنیا کے ہم پلہ و ہم مشرب بنایا جا سکے۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب پڑھے لکھے نوجوان انفرادیت کے بجائے اجتماعیت پر غور کرکے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنی قابلیت و صلاحیتیں صرف کریں۔
وقتی مشکلات و تکالیف اور آزمائشیں قوموں پر آتی رہتی ہیں, ایسی قیامتیں بھی کبھی کبھی ٹوٹتی ہیں کہ ہر چیز برباد ہوتی محسوس ہونے لگتی ہے۔ جانوں کے لالے تک پڑ جاتے ہیں۔ کبھی کچھ راستہ سجھائی نہیں دیتا اور سفر لمبا ہی لمبا ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن ایسے اوقات قوموں کے جوان خون کے ظرف اور حوصلے کا امتحان ہوا کرتے ہیں۔ ایسے برے وقت نوجوانوں کے عالی عزم حوصلوں کو توڑنے کے بجائے انہیں نئی طاقت بخشتے ہیں۔ یاس و قنوطیت کے لباس میں کسی کونے کھدرے میں دبک کر بیٹھے رہنے والے نوجوان بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ سیر سپاٹے، ہنسی دل لگی، کھیل کود، محبت یاراں، شعر و شاعری کے مشاغل اختیار کرنے والے ہی ملکی تقدیروں کو بدلنے کا فریضہ سرانجام دے کر تاریخ میں امر ہوا کرتے ہیں۔
ارباب اختیار آج کے نوجوان کی نفسیات کو سمجھیں اور ملک و قوم کی ترقی و فلاح میں ان کے کردار کو پہچانیں۔ موبائل فون‘ انٹرنیٹ‘ سوشل میڈیا سمیت ٹیلی کمیونیکیشن انقلاب نے سب سے زیادہ سماجیات کو متاثر کیا ہے۔ اس وقت نوجوان نسل کا تحفظ اور اُن کا نفسیاتی استحصال روکنا وقت کی بڑی ضرورت اور اہم تقاضا ہے۔