کیا آپ نے کبھی کسی ایسے بھکاری کو دیکھا ہے، جو صبح سے شام تک بھیک مانگنے کے بعد اپنے بچوں کے لئے روٹی خریدتا ہو۔ اور اپنے پیسے سے بچوں کا تن ڈھانکنے کا سامان بھی کرتا ہو …؟
یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ کیوں کہ ہمارے ہاں بھکاری اپنی مجبوری اور ضرورتیں پوری کرنے کے لئے بھیک نہیں مانگتے بلکہ انھیں مانگنے کی عادت پڑچکی ہوتی ہے۔ یہ لوگ روزانہ اچھی خاصی بھیک اکٹھی کرنے کے باوجود کھاتے بھی مانگ کر ہیں اور پہنتے بھی مانگے ہوئے کپڑے ہی ہیں۔ یہ اپنے اوپر پیسہ خرچ نہیں کرتے، یوں ان کو دیا گیا پیسہ نہ ان کے بچوں کے کام آتا ہے نہ خرچ ہو کر معیشت کا حصہ بن پاتا ہے۔
آج کل دو قسم کے بھکاری پائے جاتے ہیں۔
پہلی قسم وہ جو بھکاری مافیا کا حصہ ہوتے ہیں۔ اور خاص خاص علاقوں، سگنلز اور بازاروں میں ڈیرہ جماتے ہیں۔ یہ خاص جگہ بھیک مانگنے کے عوض اپنے ٹھیکیدار کو بھیک کا بڑا حصہ ادا کرتے ہیں۔ ٹھیکیدار بھی ٹھیکہ حاصل کرنے کے عوض اوپر والوں کی مٹھی پہلے ہی گرم کرچکا ہوتا ہے۔
بھکاریوں کی دوسری قسم
کام چور اور لالچی افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ پیدل گلیوں گھومتے ہیں، مسجدوں اور دکانوں کے باہر بیٹھ جاتے ہیں۔ بھکاریوں کی ان دونوں اقسام کا مقصد صرف مانگنا ہوتا ہے۔ یہ پیسہ اپنی حالت بہتر بنانے پر خرچ نہیں کرتے۔
چند سال قبل راول پنڈی میں ایک بھکاری کا انتقال ہوا، مرنے کے بعد اس کی کٹیا سے نوٹوں سے بھرے کئی تھیلے ملے۔ جن میں آج کل استعمال ہورہے نوٹوں سے لے کر چالیس، پچاس سال قدیم نوٹ تک موجود تھے۔ بالکل ایسا ہی واقعہ کراچی میں بھی پیش آیا، جہاں ایک بھکارن کے مرنے کے بعد اس کی کٹیا سے نوٹوں سے بھرے تکیے اور بوریاں برآمد ہوئی تھیں۔
بھیک مانگنے والے یہ پیشہ ورلوگ اپنے کام کے ماہر ہوچکے ہیں۔ آپ کو ترس کھانے پر مجبور کس طرح کرنا ہے، یہ انھیں بہت اچھی طرح آتا ہے۔ اسی طرح یہ چھوٹے بچوں کو بھی ساتھ اسی لئے ساتھ رکھتے ہیں۔ کہ بچے کو برے حال میں دیکھ کر رحم کھا کر لوگ بھیک دینے پر مجبور ہوجائیں۔ ساتھ ہی بچوں کی شکل میں یہ بھکاریوں کی نئی نسل بھی تیار کررہے ہوتے ہیں۔
ایک سفید پوش بھکاری کا انٹرویو کیا گیا، تو پتا چلا وہ کراچی کے ضلع وسطی کے ایک علاقے میں پکے مکان میں رہتا ہے۔ اس کے بچے جاب اور کاروبار کرتے ہیں، وہ بچے اپنے باپ کو بھیک مانگنے سے روکتے بھی ہیں۔ لیکن بھکاری باپ ضعیف العمری میں بھی بھیک مانگنے سے باز نہیں آرہا۔ کیونکہ اسے عادت پڑچکی ہے۔
یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں گداگری اب ایک منظم پیشہ بن چکا ہے۔ لیکن لوگ یہ جانتے بوجھتے بھی انھیں بھیک دے کر ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان کو دیے ہوئے صدقات اور خیرات بھی کسی کے کوئی کام نہیں آ رہے ہوتے، ایسے میں خدشہ یہ ہے کہ جانتے بوجھتے ایسے لوگوں کو پیسے دینے سے شاید نیکی بھی حاصل نہ ہوسکے۔
یہ بھکاری مسلسل پیسہ جمع کیے جاتے ہیں، لیکن خرچ نہیں کرتے۔ اس طرح وہ پیسہ معیشت کے گھومتے پہیے کا حصہ نہیں بن پاتا۔ اور کہیں دفن ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس طرح سے یہ ملک کی اقتصادیات کے لئے بھی نقصان کا باعث ہوتا ہے۔
کوشش کریں کہ مالی مدد ان محنت کشوں کی، کریں جنھیں آپ جانتے ہوں۔ مثال کے طور پرآپ کے گھر کے ملازم اور ملازمائیں، گلی کے چوکیدار، قرب و جوار میں چھوٹے موٹے اسٹال یا ٹھیلے لگانے والے، صفائی والے، کچرا اٹھانے والے، آپ کے دفتر کے پیون اور سیکورٹی گارڈز وغیرہ۔
جان پہچان والے ان غربا کی مدد سے آپ اپنے قرب و جوار میں لوگوں کی حالت سدھارنے میں حصہ دار بن رہےہوں گے، یوں سب لوگ جب اپنے اپنے قرب و جوار میں اس طرح کریں گے تو پورے شہر بلکہ ملک میں حقیقی ضرورت مندوں کی مدد ہونے لگے گی۔ اور پیشہ ور بھکاریوں اور بھکاری مافیا کی شدید حوصلہ شکنی ہو گی۔ مدد اس کی کریں جس سے آپ واقف ہوں۔ یا کم از کم آپ کا کوئی واقف کار اس سے واقف ہو۔
یہاں ایک خاص مافیا کا ذکر کرنا بھی ضروری ہوگا، جو لوگوں کو بے وقوف بنا کر مال بٹورنے نکلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک تو غیر معروف این جی اوز والے ہیں جو گھر گھر دستک دے کر اپنے پیپرز دکھاتے ہیں کہ وہ فلاحی کام کررہے ہیں، ان کی تنظیم کی مدد کی جائے، اسی طرح کچھ لوگ غیر معروف تنظیموں کی ایمبولینس لے کر گھوم رہے ہوتے ہیں۔ اور میگافون پرعطیات کی اپیل کررہے ہوتے ہیں۔ یہ سب کاغزی تنظیمیں ہیں، یہ لوگ مال جمع کرکے اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں۔
میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی بھکاری کو ایک روٹی بھی بھی خریدتے نہیں دیکھا، حالانکہ اس کی جیب نوٹوں سے بھری ہوتی ہے۔ جب کہ کوئی محنت کش آج کل جب اپنے خاندان کے لئے ایک وقت کی روٹی کا انتظام کرتا ہے تو اس کی ایک دن کی کمائی کام میں آچکی ہوتی ہے۔
تو بس سمجھ لیں کہ آپ کی مدد کی اصل ضرورت کسے ہے۔