بات صرف اتنی سی تھی کہ نکاح کے وقت دولہن کے والد کے منہ سے یہ بات نکل گٸی تھی کہ نکاح نامے میں اس شرط کا اندراج کیا جاۓ کہ اگر دولہا بلاوجہ اپنی بیوی کو طلاق دے گا تو اسے پانچ لاکھ روپے بطور ہرجانہ ادا کرنے ہوں گے۔ یہ سنتے ہی دولہا کا والد آگ بگولا ہو کر کہنے لگا کہ آپ نے ہمیں سمجھ کیا رکھا ہے، کیا ہم اتنے گٸے گزرے اور گھٹیا لوگ ہیں کہ اپنے بیٹے کا رشتہ شرطوں پر کریں گے، یہ تو سراسر ہماری توہین کی گٸی ہے۔ بات بگڑتے بگڑتے یہاں تک پہنچ گٸی کہ بغیر دولہن ہی بارات کی واپسی کا فیصلہ کر لیا گیا۔ دولہن کے والد نے تھوڑی دیر بعد ہی لوگوں کے کہنے پر اپنے مطالبے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا مگر دولہا کا باپ تھا کہ کسی طور مان ہی نہیں رہا تھا۔ دولہن کے باپ شفیق صاحب کی تین بیٹیاں تھیں۔ ان تینوں سے چھوٹا ایک بیٹا تھا مراد۔ شفیق صاحب ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھے۔ اوپر کی آمدنی کے سخت خلاف تھے۔ بیوی انہیں کافی سگھڑ ملی تھی۔ شوہر کی قلیل آمدنی میں سے بھی کچھ نہ کچھ بچت ہر مہینے کر لیا کرتی تھی۔ کپڑے سلاٸی کرنا جانتی تھی۔ ادھر سے بھی کچھ آمدن ہو جایا کرتی تھی۔ رشتہ دار سبھی امیر تھے اس لٸے نہ کبھی وہ ان کے ہاں آۓ اور نہ ہی یہ لوگ ان کے ہاں جانے کی ہمت کر پاتے۔بیٹیاں تو بکاٸن کا درخت ہوتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بڑی ہو جاتی ہیں۔ شفیق صاحب کی تینوں ہی بیٹیاں جوان ہو چکی تھیں۔ میاں بیوی کو اب دن رات ان کی شادی کی فکر کھاۓ جاتی تھی۔ جاننے والوں کے علاوہ رشتہ کرانے والوں سے بھی بڑی بیٹی کے رشتے کے لٸے کہہ رکھا تھا۔ بے تحاشہ مہنگاٸی کے اس دور میں تینوں بیٹیوں کی ایک ساتھ شادی کرنا ممکن نہ تھا۔ ایک کا فرض ادا ہو جاتا تو باقی دو کے بارے میں سوچتے۔ایک رشتہ کرانے والی ماٸی کے ذریعے ہی یہ رشتہ طے ہوا تھا۔ لڑکا کسی فیکٹری میں سپرواٸزر تھا۔ رشتہ کرانے والی نے لڑکے اور اس کے خاندان والوں کی تعریفوں کے اتنے پُل باندھے تھے کہ شفیق صاحب اور ان کی بیگم کو اپنی بیٹی کی قسمت پر ناز ہونے لگا تھا۔ رشتہ طے ہوا اور شفیق صاحب کے گھر لڑکے والوں کی آمدورفت شروع ہو گٸی۔ کبھی نند، کبھی جیٹھانی، کبھی چاچی ساس، کبھی مامی ساس تو کبھی تاٸی ساس۔ ہر رشتے کو یکساں احترام دلانے کی خاطر وہ لوگ الگ الگ ٹولیوں میں آتے رہتے اور آنے سے پہلے فون کر کے آگاہ کر دیا جاتا کہ آپ لوگوں نے جس خلوص اور محبت سے مامی اور ان کے گھر والوں کی خاطر تواضع کی ہے اس نے تو انہیں آپ کا گرویدہ بنا دیا ہے اور تاٸی امی کے گھر والوں کے سامنے مامی نے آپ لوگوں کی اتنی تعریف کی ہے کہ وہ لوگ بھی آپ کے ہاں آنے کو بے تاب ہو گٸے ہیں۔ اس لٸے کل ہمارے ساتھ تاٸی امی کے گھر والے آ رہے ہیں۔ یہ گویا ایک طرح کی وارننگ ہوتی تھی کہ دیکھنا مہمانوں کی خاطر مدارات میں کوٸی کمی نہ آنے پاۓ۔ جہاں تک مہمانوں کا تعلق تھا تو ان کی آمد کے ساتھ ساتھ جہیز کی آٸٹمز کی فہرست بھی لمبی ہوتی جا رہی تھی۔ براہٍ راست بھی اور بالواسطہ طور پر بھی مطالبات کی فہرست میں اضافہ ہو رہا تھا، ”اے بہن بیٹی کو فریج کون سی کمپنی کی لے کر دے رہی ہو؟، زیادہ بڑا اے سی نہ دینا دو ٹن کا ہی کافی ہے۔ موٹر ساٸیکل اچھی کمپنی کی دیجیے گا“۔ پندرہ لاکھ روپے جہیز پر خرچ ہو گٸے تھے۔ کچھ پاس تھے باقی قرض لیا گیا تھا۔ شادی کی تاریخ طے کرنا بھی باقاعدہ ایک تہوار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اور اس تہوار کا سارا بوجھ لڑکی والوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ مہمانوں کی وی آٸی پی کھانے سے تواضع کرنے کے علاوہ سب کے لٸے کپڑے خریدنے پڑتے ہیں۔ مہمان دس ہوں یا پچاس، اس سے کوٸی فرق نہیں پڑتا۔ شفیق صاحب کو پندرہ لوگوں کا بتایا گیا اور پینتالیس مرد و خواتین آ گٸے۔ افراتفری میں ہوٹل سے ریڈی میڈ کھانا منگوانا پڑا اور مزید تیس لوگوں کے لٸے کپڑوں کا بندوبست کرنا پڑا۔ پھر یوں ہوا کہ چار پانچ لوگوں نے شفیق صاحب کو گھیر لیا کہ بارات میں کتنے بندے آ جاٸیں؟ وہ چپ کھڑے ان کا منہ دیکھنے لگے، اس اچانک حملے کے لٸے وہ ذہنی طور پر تیار ہی نہیں تھے۔ مہمانوں میں سے ہی ایک بولا ”دیکھیں جی ڈیڑھ سو کے قریب تو ہمارے رشتہ دار ہی بنتے ہیں، سو کے قریب دوست احباب اور محلے دار ہو جاٸیں گے۔ آپ بس ڈھاٸی سو باراتیوں کا انتظام کر لیجٸے گا اور ہاں بارات کے ساتھ واپسی پر دو دیگوں سے زیادہ کھانا مت بھیجٸے گا“۔ شفیق صاحب گُنگ کھڑے تھے کہ اب انہیں کیا جواب دیں کہ مت لانا اتنے بندے، میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ وہ لوگ شفیق صاحب کے جواب کا انتظار کٸے بغیر چلتے بنے۔مہمان چلے گٸے تو شفیق صاحب حساب لگانے بیٹھ گٸے کہ چار پانچ لاکھ سے زاٸد رقم تو صرف کھانے کی مد میں ہی درکار ہو گی۔ صرف ایک بیٹی کی شادی پر تیس لاکھ روپے خرچ ہوتے نظر آ رہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اس پہلی بیٹی کی شادی پر لیا گیا قرضہ واپس کرنے میں ہی تین چار سال لگ جاٸیں گے۔ باقی دو بیٹیوں کی شادی کا فرض کیسے ادا ہو پاۓ گا۔ اب نکاح کے وقت دولہا کے والد نے نیا بکھیڑا کھڑا کر دیا تھا۔ جب بات بگڑتی ہی چلی گٸی تو شفیق صاحب کے دوستوں اور محلے والوں کو بھی طیش آ گیا اور پھر پہلا تھپڑ دولہے کے والد کے منہ پر پڑنے کی دیر تھی کہ پوری بارات گھونسوں، تھپڑوں، جوتوں اور ڈنڈوں کی زد میں آ گٸی۔ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اس لٸے ہر ایک نے حسبٍ توفیق اس کارٍ خیر میں حصہ ڈالا۔ جس باراتی کا جدھر منہ اٹھا بھاگ کھڑا ہوا۔ شادی میں شریک شفیق صاحب کے دفتر میں ہی ملازم ایک نوجوان کے ساتھ لڑکی کا نکاح کر کے رخصتی کر دی گٸی۔ یہ کوٸی افسانہ نہیں سچا واقعہ ہے۔ دوستو! آٸیے مہم شروع کریں کہ بیٹی کو والدین کے لٸے عذاب بنانے کی بجاۓ رحمت ہی رہنے دیا جاۓ۔ توڑ دیجٸے فضول رسموں کی یہ زنجیریں جن کی وجہ سے ایک باپ توبہ کر اٹھے کہ اللّٰہ اس کو بیٹی ہی نہ دے۔ قبل از اسلام بیٹی کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا تھا، کہیں ایسا نہ ہو کہ قبیح رسموں کی وجہ سے مہذب معاشرے میں الٹرا ساٶنڈ رپورٹ دیکھ کر بیٹیوں کو پیداٸش سے پہلے ہی والدین قتل کرنا شروع کر دیں۔ ان رسموں سے چھٹکارا پا لیں کہ جن کی وجہ سے بیٹی ماں باپ کی غربت دیکھ کر اپنی شادی کا خیال ہی دل سے نکال دے۔ اپنے بیٹے کے لٸے سادگی سے نکاح کر کے بہو گھر لا کر دیکھیں، اپنی بیٹی کو بھی ایسے ہی سادگی سے رخصت کر کے دیکھیں، آپ کو سکون ملے گا، یاد رکھیٸے کہ یہ بیٹیاں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جتنی لاڈلی نہیں ہیں اور نہ ہی یہ بیٹے حضرت علی کرم اللہ وجہہ جتنے محترم ہیں، آٸیے عہد کریں کہ آنے والی نسل کی زندگی کو آسان بناٸیں گے۔ بیٹی کو رحمت ہی رہنے دیں گے، اسے ناگوار بوجھ نہیں بننے دیں گے۔حضور صلى الله عليه واله وسلم نے فرمایا ”سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جو آسان ہو اور کم خرچ ہو (مشکٰوة شریف)

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل