روحان دانش
پاکستانی کرنسی جس تیزی سے روزانہ کی بنیاد پر بے قدر ہو رہی ہے اور ڈالر جس طرح بے لگام ہے، حیران ہوں کہ اہل اختیار کو گویا اس کی پرواہ ہی نہیں، وزیراعظم جہاں اس سب سے بے سروکار نظر آتے ہیں، وہیں وزیرخزانہ اگر معاملے پر کوئی لب کشائی فرماتے بھی ہیں تو بس یہ کہ اپنی بے بسی کا اعلان و اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
روپے کی بے قدری اور روز افزوں اس معاشی گراوٹ کو کنٹرول کرنا، اس کے سدباب کے لیے اقدامات کرنا اگر وزیراعظم، حکومت، سٹیٹ بنک یا وزارت خزانہ کا کام نہیں، ان کے بس میں نہیں تو پھر یہ کس کا دائرہ کار ہے ؟
اک بے حسی سی بے حسی ہے چہار سو۔۔۔!!
اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور اپوزیشن سب کو اپنی سیاست، اپنی انا عزیز ہے !
سبھی ملک کا رونا رو رہے ہیں، مگر عملی اقدامات کے لیے کوئی آگے آنے کو تیار نہیں۔
ملک کی ہر دن گرتی معیشت، کاروباری نقصانات، سرمایہ کار کی پریشانی، اشیائے ضرورت کی بے لگام قیمتیں اور عوام کی حالت زار۔۔۔۔۔یہ سب آخر ارباب اختیار کو نظر کیوں نہیں آ رہا۔۔؟
ملکی معیشت کے اس نازک دوراہے پر اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور اپوزیشن کم از کم اس ایک ایشو پر تو مل بیٹھیں، ماہرین کو بلائیں، غلطیوں اور ان کے اسباب کو تلاش کریں، فوری اور طویل مدتی منصوبہ جات پر کام کا آغاز کریں اور جس طرح روپیہ روزانہ کی بنیاد پر گرا ہے، اسی طرح اسے روزانہ اور ماہانہ بنیادوں پر بہتر سے بہتر ہونا چاہیے۔ پاکستان میں معاشی بحالی اور معیشت کی مستقل بنیادوں پر ترویج جسے سیاسی اتار چڑھاو متاثر نہ کر پائے کے لیے کیا یہ بہتر نہیں کہ ملک کے معاشی و اقتصادی نظام کو فوری طور پر فوج، عدلیہ، نیب، پی آئی اے، پی سی بی وغیرہ کی طرز پر سیاست سے بالا ایک ایسے قومی ادارے کی شکل دی جائے، جس میں زراعت، صنعت، چیمبر آف کامرس، سٹاک ایکسچینج سے معاشی ماہرین کے ساتھ بورڈ آف گورنرز کے ایک جز کے طور پر حکومت و اپوزیشن سے بھی معاشی ماہرین کو مخصوص وقت کے لیے نمائندگی دی جائے۔۔۔۔۔ جو بحالی معیشت کے لیے فوری اور ترویج و ترقی کے لیے طویل المیعاد منصوبہ سازی کے ساتھ عملی اقدامات کا مجاز ادارہ ہو۔
ملک کے وسیع تر مفاد میں آخر یہ کیونکر ممکن نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔؟؟؟
مجھے معلوم ہے مجھ سے ایک ادنی کالم کار اور عام پاکستانی کی یہ آواز اور میرا مطالبہ یقینا حکمرانوں تک تو پہنچ ہی نہ پائے گا، مگر میں اپنے صحافی دوستوں اور سینیئر کالم نگاروں سے جن تک میری یہ بات پہنچ جائے اور جنھیں اللہ تعالی نے صحافتی اور سیاسی ہر دو حلقوں میں عزت دے رکھی ہے، ان سے دست بستہ گزارش کرتا ہوں کہ خدارا ہمارے بچوں کے لیے، اپنے بچوں کے لئے، اس وطن کے لوگوں کے لیے، ہم سب کی آنے والی نسلوں کے لیے اپنے اس اثر و رسوخ کو استعمال کریں اور پوری شدت سے اس بات کو اہل درد اور محب وطن دوستوں کے ساتھ مل کر پاکستان کی معیشت میں استحکام اور تسلسل کے لیے سنجیدہ کوشش کریں۔۔۔۔تاکہ ہم، ہمارے بچے، ہماری آنے والی نسلیں ایک مستحکم پاکستان کے باوقار شہری بن سکیں۔
یہاں میں اپنے صحافی دوستوں، قارئین، معاشی ماہرین، سیاست دانوں، اور اہل اختیار و اقتدار کی توجہ ایک انتہائی بنیادی نکتے کی جانب بھی مبذول کرانا چاہوں گا کہ سوچیں۔۔۔۔۔آخر کو ہماری اس شدید تنزلی اور معاشی بدحالی کی وجہ کیا ہے ؟
ہمارے ہر طرح کے معاشی منصوبہ جات کی مسلسلس ناکامی کہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روا عہد شکنی کے سبب تو نہیں۔۔۔؟؟
یقینا ایسا ہی ہے۔۔۔!!
لا الہ الا اللہ کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں جسے مصور پاکستان علامہ محمد اقبال اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اسلامی اصولوں کے لیے ایک تجربہ گاہ قرار دیا تھا کہ دنیا کی رہنمائی کا فریضہ یہان سے سر انجام دیا جا سکے، اسلام کی اسی تجربہ گاہ میں سماجی انصاف تو رہا ایک طرف۔۔۔۔۔آج 75 سال ہونے کو آئے، صرف اسلامی معاشی نظام پر بھی رائی برابر عملی پیش رفت نہ ہو سکی۔
میں اپنے وطن کے کرتا دھرتاوں سے ہاتھ جوڑ کر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ خدارا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے جنگ کے مترادف اس سودی نظام سے چھٹکارا پانے کے لیے عملی اقدامات کی اب ٹھان لیں، یاد رکھیں، صرف پاکستان ہی نہیں۔۔۔۔۔دنیا کے کسی بھی ملک میں مسائل کی بنیادی وجہ ملک کی بڑھتی آبادی قطعا نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔اللہ تعالٰی نے قرآن حکیم میں اعلان فرما دیا ہے کہ اس نے زمین میں رزق رکھ چھوڑا ہے تو یقینا اس نے قیامت تک آنے والے انسانوں کا رزق زمین میں رکھ چھوڑا ہے اور بےشک اللہ کے اندازوں میں کوئی کجی ہو ہی نہیں سکتی، اب ہمارے یا کسی بھی بدحال ملک کے ناگفتہ بہ حالات صرف اور صرف لا پرواہی، بد انتظامی اور اللہ پاک سے بغاوت کے سبب ہیں سو ہمیں اس پر فوری رجوع کی ضرورت ہے۔
اور فی زمانہ اس پر عملی اقدامات بھی مشکل یا ناممکن نہیں کہ سود کے امتناع پر پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نہ صرف دو بار حکومت کو حکم دے چکی ہے بلکہ اس کے عملی نفاذ کے لیے معاشی ماہرین کی زیر نگرانی ایک روڈ میپ بھی حکومت کو اپنے فیصلے کے ساتھ ہی دے چکی ہے۔ بس اب ضرورت اس پر عمل کے آغاز کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ سعادت کون اپنے حصے میں لیتا ہے، کون ہے جو سود سے مبرا عملی اور انسان دوست نظام معیشت کی جانب قدم بڑھا کر ایک طرف تو مالک کائنات کی جناب میں سرخرو ہو جائے۔ جبکہ دوسری جانب وطن عزیز کے باسیوں اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھ کر تاریخ میں امر ہوجائے۔