118

تحریر کیسے لکھیں؟/تحریر/ایمل صابر شاہ

سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو بھی لکھا جائے اس کو کسی کہنہ مشق ادیب اور قلم کار سے ضرور اصلاح کروانا چاہیے اس سے فن تحریر میں اصلاح ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی رنگ و مزاج بھی چڑھتا جائے گا۔

تحریر کیسے لکھیں؟ اس سوال سے پہلے یہ بات سمجھنا زیادہ اہم ہے کہ قلم اٹھا کر کیوں لکھا جائے؟ اور کس مقصد کے لیے لکھا جائے؟
لہذا پہلے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ عموماً کسی موضوع پر صاحب قلم کا اپنے تحریری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کوئی تحریر لکھنے کے پیچھے عموماً چار بڑے مقاصد ہو سکتے ہیں
اول: اصلاحِ معاشرہ
دوم :معلومات کی فراہمی
سوم: مسائل کو اجاگر کرنا
چہارم : دوسروں کی مدد کا جذبہ
عموماً ان چار مقاصد ہی کے لیے صاحب قلم لکھتا رہتا ہے، اس کے علاوہ کسی صاحب قلم کے لکھنے کے باقی مقاصد بھی ہو سکتے ہیں مگر وہ مقاصد شخصیات، نظریات، حالات یا کسی علاقے کے ساتھ خاص ہوتے ہیں۔
✓ تاکہ محفوظ رہے میرے قلم کی حرمت،
سچ مجھے لکھنا ہے میں حسن کو سچ لکھوں گا.

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ تحریر کیسے لکھیں؟

تو جناب والا!! سب سے پہلی اہم بات یہ ہے کہ آپ کو علم حاصل کرنا ہوگا، اپنے ارد گرد کی چیزوں کو سمجھنا اور پرکھنا ہوگا، اپنے فہم کے مطابق اردگرد پر نظر دوڑانا ہوگا اور اس مشاہدے سے جو نتائج اخذ ہو جائیں اسے خاص ترتیب اور مربوط شکل میں اچھے طریقے سے ذہن میں بٹھانا ہوگا، بے ترتیب اور غیر مربوط خیالات اور افکار کو مرتب و بامعنی بنانا ہی ایک تحریر نگار کا اصل کام ہے، اس کام کو ہم مشاہدہ کا نام دے سکتے ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلسل و مضبوط مطالعہ کرنا، کسی قلمکار کے لیے مطالعے کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی کہ انسان کے زندہ رہنے کے لیے سانس ضروری ہے ایک بہترین اور موثر قلم کار کے طور پر خود کو روشناس کرانے اور ادبی میدان میں خود کو منوانے کے لیے مطالعے کی وسعت از حد ضروری ہے۔
تیسری اہم بات یہ یاد رکھنی چاہیے کہ وجود میں آئے ہوئے ہر ایک لفظ کا اپنا ایک الگ مطلب ہوا کرتا ہے، وہ مطلب جس پر وہ لفظ دلالت کرتا ہے اور اسی لفظ کے سنتے ہی ہمارے سمجھ میں اس لفظ کا وہ مخصوص مطلب اور معنی یک دم آجاتا ہے۔ الفاظ اور ان کے مطالب سے پوری شناسائی کے ساتھ ساتھ مختلف علوم کے مخصوص اصطلاحی الفاظ سے واقفیت کسی بھی قلم کار کے قلم سے نکلے ہوئے شہ پارے میں بنیاد کے پتھر جیسی اہمیت رکھتی ہے۔
مذکورہ بالا تین امور پر عبور حاصل کرنے کے بعد اب آپ کر سکتے ہیں کہ کسی موضوع کو اپنے قلم سے ایک بہترین انداز بیان کے ساتھ منصہ شہود پر لا سکے۔

تحریر کو شروع کرنے سے پہلے آپ کے سامنے پہلا کام ہوگا کسی موضوع کا انتخاب، یاد رہے کہ آپ صرف موضوع کا انتخاب نہ کریں بلکہ منتخب موضوع کے ذیل میں موجود دسیوں موضوعات میں سے بھی کسی ایک موضوع کا بھی انتخاب کریں مثلاً: اگر آپ نے تعلیم کے مسئلے پر لکھنا ہے تو صرف تعلیم کو اگر آپ زیر قلم لائیں گے تو آپ کے لیے موضوع کا احاطہ کرنا مشکل ہو جائے گا بہتر یہ ہوگا کہ تعلیم کے ذیل میں موجود دسیوں موضوعات مثلاً نظام تعلیم کی خرابی، امتحانی نظام کی بہتری، تعلیمی اداروں کی حالت زار، شرح خواندگی میں اضافہ وغیرہ جیسے ذیلی موضوعات میں سے کسی ایک کا بھی انتخاب کریں ، اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کی تحریر الجھن کا شکار نہیں ہوگی اور تحریر کسی ایک خاص موضوع کے ارد گرد ہی گھومتی رہے گی۔
لکھنے کے لیے کسی موزوں موضوع کے انتخاب کے بعد اس موضوع پر ایک مضبوط، موثر، جامع، مانع اور نکھری ہوئی تحریر تشکیل کرنے کے لیے آپ کو تین کام ضرور کرنے ہوں گے، پہلا کام منتخب موضوع پر بھرپور کتابی مطالعہ، دوسرا کام منتخب موضوع پر اصحابِ علم و فکر کے ساتھ مکالمہ اور تیسرا کام مطالعے اور مکالمے کے بعد خود سے غور و فکر کر کے نتائج اخذ کرنا، یقیناً ان تین بنیادوں پر کھڑی تحریر جامع و مانع ہونے کے ساتھ ساتھ موثر بھی ہوتی ہے۔
مطالعہ، مکالمہ اور غور و فکر کے بعد تحریر کے لیے کسی ایسے عنوان یا سرخی کا انتخاب کرے جو کہ جاذب نظر ہو اور پہلے ہی نظر میں قاری کو پتہ لگ جائے کہ میں کیا پڑھنے جا رہا ہوں۔
عموماً تقریر کی طرح تحریر کے بھی تین حصے ہوا کرتے ہیں، پہلے حصہ کو ہم ابتدائیہ کہہ سکتے ہیں، تحریر کا ابتدائیہ ایسا دلچسپ ہونا چاہیے کہ پڑھتے ہی قاری گرفت میں آ جائے اور یہ تہیہ کر لے کہ اس مضمون کو مکمل پڑھ کر ہی چھوڑنا ہے۔ دوسرا حصہ تحریر کا درمیانہ حصہ ہوتا ہے جو کہ تحریر کے لیے ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتا ہے، اس میں قلمکار اپنی بات کو دلیل و برہان سے مزین کرتا ہے، یہی وہ حصہ ہوتا ہے جس میں موضوع کے اردگرد کا احاطہ کیا جاتا ہے اور قاری کو مطلوبہ چیز اسی ہی درمیانی حصے سے ملتی ہے۔ تیسرا حصہ کسی تحریر کا اختتامی حصہ ہوا کرتا ہے تحریر کا اختتام ایسا ہونا چاہیے کہ قاری کو پتہ چل جائے کہ تحریر مکمل ہو گئی، تکمیل اس طرح سے کرنا چاہیے کہ قاری کو اپنے تمام سوالات کے جوابات مل چکے ہو، مضمون کے کسی بھی زاویے کو تشنہ نہ رکھا گیا ہو اور منتخب موضوع کا بھرپور احاطہ کیا گیا ہو۔

قلم اٹھاتے وقت خیال رہے کہ ہر بات دلیل سے مزین ہو، ہمیشہ مثبت لکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے، منفی انداز میں لکھنا، بے جا نقد اور جوش میں آ کر طنز و تشنیع کے نشتر چلا کر دلوں کو زخمی کرنے سے ہمیشہ کنارہ کشی کرنی چاہیے، ہمیشہ آسان اور آسانی سے سمجھ میں آنے والے الفاظ کا چناؤ کیا جائے۔ یاد رہے کہ الفاظ مل کر جملہ، جملے مل کر پیراگراف اور مختلف پیراگراف مل کر ایک مکمل مضمون تشکیل دیتا ہے، لہذا الفاظ پر خصوصی توجہ دینے سے مضمون مربوط ہوکر مزید نکھر کر سامنے آتی ہے اور ان تینوں عناصر (الفاظ، جملے، پیراگراف)میں حسن اسلوب سے اتا ہے لہذا اگر ابتدا میں کسی مبتدی قلم کار کا اپنا اسلوب یا طرز تحریر نہ ہو تو بے شک کسی اچھے ادیب و قلم کار کے طرز تحریر کو نقل کیا جا سکتا ہے پھر آہستہ آہستہ خود سے ایک دن صاحب اسلوب بن جائے گا۔
✓ پیار کا پہلا خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے
نئے پرندوں کو اڑنے میں وقت تو لگتا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو بھی لکھا جائے اس کو کسی کہنہ مشق ادیب اور قلم کار سے ضرور اصلاح کروانا چاہیے اس سے فن تحریر میں اصلاح ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی رنگ و مزاج بھی چڑھتا جائے گا۔

یہ بات یاد رہے کہ تحریر کیسے لکھیں؟ آؤں! تحریر سیکھے؟ اچھی تحریر کیسی لکھی جاتی ہے؟ مضمون نگاری کیا ہے؟ مضمون کس طرح لکھا جائے؟ وغیرہ جیسے جاذب نظر عنوانات پر مشتمل تحریر سکھانے والے مضامین کے پڑھنے سے تحریر لکھنے کا فن پیدا نہیں ہوتا، ہاں! ان مضامین کے پڑھنے کا فائدہ صرف اتنا ہوتا ہے کہ ایک قلم کار تحریر لکھنے اور اسکو نکھارنے کے خطوط سے آشنا ہو جاتا ہے لیکن باقاعدہ تحریر لکھنے، تحریری ملکہ پیدا کرنے اور ادبی میدان میں اپنا ایک الگ مقام بنانے کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے قلم اٹھا کر لکھنا۔
لہذا
ڈریں مت، قلم اٹھائے اور لکھتے جائیں، لکھتے جائیں اور بس لکھتے جائیں، پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کیونکہ مستقبل آپ ہی کا ہے۔
✓ لکھ کے رکھ دیتا ہوں الفاظ سبھی کاغذ پر،
لفظ خود بول کے تاثیر بنا لیتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں