98

تذکرہ غازی علم الدین شہیدؒ/تحریر/محمد ہاشم روات

گزشتہ سال دوستوں کے ساتھ لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ واپسی پر میانی قبرستان میں مدفون اکابرین کی قبور پر فاتحہ کی نیت سے حاضری دی۔اسی قبرستان کے قریب مزار غازی علم الدین شہیدؒ کے بورڈ پر نظر پڑی تو فاتحہ کی نیت سے غازی علم الدین شہیدؒ کی قبر پر بھی سعادت سمجھ کر حاضر ہوئے کہ ختم نبوتﷺ کا عظیم سپوط سو رہا ہے۔قبر پر عقیدت مندوں کا آنا جانا لگا تھا ہر آنے والا محبت و عقیدت کا اظہار کررہا تھا۔ سارا منظر دیکھ کر ایک اللہ والے کا قول یاد آگیا کہ مسئلہ ختم نبوت پر پہرہ دینے والے دنیا و آخرت میں چمک جاتے ہیں۔

آج پھر 31 اکتوبر 2023 کو غازی علم الدین شہیدؒ کی یاد تازہ ہوگئی۔ 31 اکتوبر 1929 جمعرات کے دن غازی علم الدین شہیدؒ کو میانوالی جیل میں پھانسی کی سزاء دی گئی تھی۔جس کے نتیجہ میں آپ نے جام شہادت نوش کیا تھا۔

کون جانتا تھا 4 دسمبر 1908 کو لاہور طالع مند مرحوم کے گھر میں پیدا ہونے والا بچہ تاریخ رقم کرے گا۔آپ کا خاندان دیکھا جائے تو آباؤ اجداد سکھ مت کے پیروکار تھے۔مغل بادشاہ جہانگیر کے دور حکمرانی میں آپ کے جد بابا لہنا سنکھ سدھو نے اسلام قبول کیا تھا۔آپ کے آباؤ اجداد ہجرت کر کے موضع پڈانہ آ کر آباد ہوئے۔

21 سالہ نوجوان غازی علم الدین اپنے خاندان کے ساتھ محلہ سریانوالہ لاہور میں مقیم تھا کہ 1927 کے سال “پرتاب” نامی اخبار کے مدیر مہاشے راجپال نے ایک کتاب لکھ کر شائع کروائی جس میں قرآن کریم اور جناب رسول اللہ ﷺ کے متعلق ارادتاً نازیبا الفاظ و جملے ذکر کئے۔توہین پیغمبر, توہین قرآن کریم اور مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے پر وقت کی عدالت نے صرف چھ ماہ قید کی سزاء سنائی لیکن مجرم کی درخواست ضمانت کے بعد جسٹس دلیپ سنگھ کے حکم پر رہائی دے دی گئی۔
اس ظلم در ظلم نے حالات و فضاء کو یکسر تبدیل کردیا۔احتجاجی مظاہرے اور تحریکیں چلنے لگی لیکن انگریز حکومت اور عدالتوں نے مجرم کو تحفظ دینا شروع کردیا جس بنا انصاف نے اپنا راستہ خود نکالا اور رجپال پر پہلا حملہ غازی خدا بخش گجرؒ نے 24 ستمبر 1928 کو کیا لیکن مجرم موقعہ سے زندہ بھاگ نکالا۔لیکن 6 اپریل 1929 دن دو بجے گستاخ مہاشے راجپال مجاہد ختم نبوت غازی علم الدین کے حملہ کا نشانہ بن کر اپنے انجام کو پہنچ گیا۔

گستاخ کی موت کے بعد 21 سالہ نوجوان جو ترکھان قوم سے تھا ہمیشہ کیلئے تاریخ میں امر ہوگیا تاریخ محافظین ناموس رسالت ﷺ جس کی ابتداء حضرات صحابہ اکرامؓ شروع ہوئی تھی اس صف میں غازی علم الدین شہیدؒ نے اپنا نام لکھوادیا۔

اس واقعہ کے بعد پولیس کو گرفتاری دی اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لوئس کی عدالت میں مقدمہ چلا۔عدالت نے بڑی تیزی سے کیس کی سماعت کرتے ہوئے 22 مئی 1929 کو سزائے موت کی سزاء سنادی۔عدالت کے اس فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی کیس لڑنے کیلئے قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم بمبئی سے لاہور تشریف لائے بیرسٹر فرخ حسین آپ کے معاون بنے۔لیکن ہائیکورٹ نے سزاء برقرار رکھتے ہوئے 15 جولائی 1929 کو اپیل خارج کردی۔اور آپ کو میانوالی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔

غازی علم الدین شہید کی شہادت کے بعد میت کو انگریز گورنمنٹ نے نامعلوم مقام پر دفن کردیا لیکن مسلمانوں کے اشتعال و احتجاج اور مسلمان رہنماؤں کے مذاکرات کے بعد 15 نومبر 1929 کو میت دو ہفتوں کے بعد وفد کے حوالے کی گئی۔بالاآخر عظیم مجاہد جس کی زیارت کیلئے خلق خدا بیتاب تھی لاکھوں افراد کے جلوس کی صورت میں جنازہ لاہور لایا گیا۔آپ کا نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب جامع مسجد وزیر خان مرحوم نے پڑھائی آپکو مولانا دیدار علی شاہ مرحوم اور علامہ محمد اقبالؒ نے قبر میں اتارا اور بالاآخر ہزاروں ناموس رسالت ﷺ کے پروانوں نے اپنی آہوں اور آنسوؤں کے ساتھ یہ کہتے ہوئے کہ “شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے” ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سپرد خاک کردیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں