اسلام دینِ فطرت ہے اسکی تعلیمات آفاقی ہیں جو وقت اور جگہ کی حدود و قیود سے ماورا ہیں صدی چاہے ساتویں ہو یا اکیسویں اسکی تعلیمات اور قوانین ہر زمانے کے تقاضوں پہ پورا اترتے ہیں گویا کہ اسلامی تعلیمات اقوام کی ترقی، اخلاقی قدوقامت، معاشی و معاشرتی اقدار کے فروغ اور دنیا میں فتح و کامرانی کیلیے ایک کسوٹی ہے جس قوم نے بھی ان تعلیمات کو اپنا لیا وہ قومیں بامِ عروج تک پہنچ گئی اور جن قوموں نے ان کو پسِ پشت ڈال دیا وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوگئی ہیں۔ آج اگر مسلمانوں کے حالات کو دیکھا جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے ہم جنت کے وارث ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اسلامی اصولوں سے کوسوں دور ہیں جن اقدار کو ہمارا اوڑھنا بچھونا ہونا چاہیے تھا، وہ اغیار نے اپنا لی ہیں اور اخلاقی، معاشی، سماجی اور علمی میدان میں اپنا آپ منوا چکی ہیں آپ مغربی اقوام کو دیکھ لیجیے وقت کی پابندی، فرائض کی ادائیگی، انصاف کی فراہمی، قوانین کی پاسداری الغرض ہر شعبہ زندگی میں وہ اقوام ہم سے کہیں بہتر ہیں اس کے مقابلے میں اگر ہم اپنا موازنہ کریں تو دنیا کی کونسی ایسی برائی ہے جو ہم میں نہیں پائی جاتی درجہ چہارم کے ایک معمولی ملازم سے لے کر اعلیٰ عہدیداروں تک ہر شخص کرپشن، بدعنوانی، رشوت خوری اور اقربا پروری جیسے جرائم میں ملوث ہے اگر کوئی مظلوم انصاف کیلیے اداروں کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو اسکو اتنا ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ اس بےچارے کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ بطور قوم ہم اتنے پست ہوچکے ہیں کہ پانچ سال کی معصوم بچی سے لے کر پچاس سال تک کی عمر رسیدہ خواتین کو جنسی استحصال کا دھڑکا لگا رہتا ہے، نوجوان لڑکیوں کو ڈگریوں کے حصول کے لیے اپنی عزتوں کے سودے کرنے پڑتے ہیں۔ فیشن اور جدت پسندی نے ہماری نوجوان نسل کو تماشہ بناکے رکھ دیا ہے لباس اور عبایہ پہن کر بھی ہماری بچیاں بے پردگی اور فحاشی کا مظہر ہیں، اور ہمارے نوجوان اسلامی شعار اپنانے کو محدود سوچ اور ذہنی پسماندگی سمجھتے ہیں۔ ہمارے ججز اور نام نہاد پیروں کے گھروں میں مظلوم بچیوں پر وہ ظلم و ستم ڈھائے جاتے ہیں کہ انکی زندگی موت سے بدتر ہوجاتی ہے۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے گلی محلے میں موجود مفلس اور غریب سفید پوش دو وقت کی روٹی کے لیے خودکشیاں کر رہے ہیں لیکن ہمارے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی ہمارے حکمرانوں کے دل میں غریب عوام سے ہمدردی کی بجائے اپنی دولت بڑھانے کا جنون ہے ۔ پیسے سے عدالتیں، ادارے اور منصف سب کو خریدا جاسکتا ہے غریبوں کی جان لینا امیروں کیلیے سوائے کھیل تماشے کے کچھ نہیں ہے ۔ یادرکھیے قوموں میں بگاڑ اچانک یا حادثاتی طور پر پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی ایک مسلسل عمل ہوتا ہے جہاں برائی کو دیکھ کر چشم پوشی اختیار کرلی جائے جرائم کی بیخ کنی کیلیے مناسب اقدامات نہ کیے جائیں وہاں قوم پھر قوم نہیں رہتی بلکہ افراد کا ہجوم بن جاتی ہے۔ اللہ عزوجل کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی اسکا کوئی عزیز رشتہ دار نہیں ہے اسکے ہاں معزز و محترم وہی ہے جو اسکے قائم کیے ہوئے اصولوں پر کاربند ہے جو محنت کریگا وہی کامیاب ہوگا چاہے وہ عیسائی ورکر تھامسن میٹکاف ہی کیوں نہ ہو جو سات بجے دفتر پہنچ جایا کرتا تھا جبکہ دن کے ایک بجے اٹھ کے ناشتہ کرکے اپنے امور سرانجام دینے والا ناکام ہی رہتا ہے چاہے وہ ایک مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو۔ جس معاشرے میں صحافی اور لکھاری خوشامدی بن چکے ہوں، دکانداروں اور تاجروں کے ہاتھ بےایمانی، سودخوری، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی سے آلودہ ہوچکے ہوں، علمائے کرام اور نام نہاد پیر منافق، غنڈے اور عوام کے حلق سے نوالہ چھیننے والے بن چکے ہوں، جہاں پولیس، سیاستدان، قانون نافذ کرنے والے ادارے چوری، رشوت، اقربا پروری اور سفارش جیسی لعنت میں جکڑے ہوئے ہوں، جہاں ڈاکٹر، منصف اور مقتدر حلقے بےایمان اور انسانی ہمدردی سے بیگانے ہوں وہاں پھر انقلاب نہیں بلکہ عذاب آتے ہیں۔ ایسی قوم یا معاشرے کو تباہ ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ احبابِ کرام !!! تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے زمانہ ایک کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے موجود ہے اگر ہم نے ماضی اور اپنی موجودہ حالت کو دیکھ کر بھی سبق حاصل نہ کیا اور اپنی اور اپنی قوم کی اصلاح کیلیے اقدامات نہ کیے تو یاد رکھنا حالات اس سے بھی کہیں زیادہ بدتر ہوجائیں گے بقولِ شاعر “تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں”

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل